Classic Web Special

Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Episode 1 online reading

“يہ کيا کرتے پھر رہے ہو تم” سميرہ تيزی سے اسکے کمرے کا دروازہ کھول کر غصے ميں بھری ہوئ اندر داخل ہوئ۔
“تمہيں اطلاع دے دی ۔۔ تمہاری چمچی نے” آرام دہ صوفے پر بيٹھا ہوا رخ کھڑکی کی جانب تھا۔ سيگرٹ کے مسلسل کش لگاتے وہ اندر کا اضطراب کم کرنے کی کوشش ميں تھا۔
ايک اچٹتی نظر سميرہ پر ڈالی۔ جو اب دروازہ بند کرکے اسکے سامنے والے صوفے پر بيٹھی جانچتی نظروں سے اسے ديکھ رہی تھی۔ دونوں کے بيچ چھوٹی سی کافی ٹيبل موجود تھی جن پہ موجود ايش ٹرے ميں وہ گاہے بگاہے سيگرٹ کی راکھ چھڑک ديتا تھا۔
“ہاں بتا ديا اس نے۔ کيونکہ وہ جانتی ہے ميرے علاوہ کوئ اور تمہيں قابو نہيں کرسکتا” وہ بڑے مان سے گويا ہوئ۔
“تمہاری خوش فہمی کہوں يا غلط فہمی” نظريں ايک بار پھر کھڑکی سے باہر لان ميں موجود برگد کے درختوں پر تھيں۔
“کيوں ضد لگا رہے ہو؟” بہن تھی۔۔ ماں اور باپ کی بے رخی کے بعد وہ دونوں ہی ايک دوسرے کی کل کائنات تھے۔ اسکی رگ رگ سے واقف تھی۔ يہ بھی جانتی تھی کہ اس ضد کے پيچھے کوئ وجہ ہوگی۔ وہ ايسے ہی کسی چيز کی ضد نہيں لگاتا۔
“وجہ بتاؤ” اسکے کہنے کی دير تھی کہ ايک اخبار اس نے سينٹر ثيبل سے اٹھا کر سميرہ کے سامنے پھينکنے کے انداز ميں رکھتے اسے اٹھانے کا اشارہ کيا۔
سميرہ نے تيزی سے اخبار اٹھايا۔ جس پر ريم کا انٹرويو تھا۔ اخباروں کے علاوہ وہ کسی چينل پر انٹرويو نہيں ديتی تھی اور اس پر اپنی تصوير بھی نہيں ديتی تھی۔
“اس نے ميرے بارے ميں ايک سوال پوچھے جانے پر فرمايا ہے کہ وہ ايسے لوگوں کے بارے ميں کوئ بات نہيں کرنا چاہتی” اشاذ نے تلخ لہجے ميں خود کلامی کے سے انداز ميں کہا۔ سميرہ کی نظريں تيزی سے اس انٹرويو پر پھر رہی تھيں۔ ايک جگہ نظريں ٹہر گئيں۔
“ريم آپکے ڈراموں کے ڈائريکٹر اشاذ کے آجکل کچھ اسکينڈل منظر عام پر آۓ ہيں۔ کيا آپ کچھ کہنا چاہئيں گی؟
“ميں کسی کی ذاتی زندگی کے بارے ميں کوئ بات کرنا پسند نہيں کرتا۔ اور نہ ہی ايے لوگوں کے بارے ميں کوئ کمنٹ پاس کرتی ہوں۔ وہ ميرے ڈراموں کے ڈائريکٹر ہيں۔ اس سے زيادہ ميں انہيں نہيں جانتی نہ جاننے کا شوق ہے” اسکے الفاظ شايد سادہ تھے مگر اشاذ کو بہت بری طرح چبھے تھے۔
“ميرے خيال ميں يہ کوئ اتنی بڑی بات نہيں۔ تمہيں تو اس تنقيد کا عادی ہونا چاہئيے۔” سميرہ نے اخبار رول کرکے ٹيبل پر رکھ کر اسکی بات کو ہوا ميں اڑانا چاہا۔ مگر وہ جانتی تھی کہ وہ جس کے پيچھے لگ جاتا تھا۔ چاہے وہ بات چھوٹی ہوتی يا بڑی۔۔ پھر دنيا کی کوئ طاقت اسے ہٹا نہيں سکتی تھی۔ جنونی سا ہو جاتا تھا وہ۔
“مگر مجھے “اس” کے منہ سے يہ صرف تنقيد نہيں لگی۔ بھئ جب تم کسی کے بارے ميں کمنٹ نہيں کرتی تو يہ کہنے کی کيا ضرورت تھی کہ “ايسے لوگون”۔۔۔۔۔ کيسے لوگوں۔۔ اب ديکھنا چاہتا ہوں کہ کون سی پارسا ہے جسے ہم “ايسے لوگ” لگتے ہيں۔ اب کہہ ديا تو بھگتے” وہ پھر سے ضدی لہجے ميں بولا۔
“اشاذ يہ اتنی بڑی بات نہيں۔۔ اچھا تمہيں کريکشن کروانی ہے تو ميں چلی جاتی ہون اسکے گھر کروا کر لے آتی ہوں” وہ جيسے اسے اس ضد سے ہٹانے کے جتن کررہی تھی۔
“کيوں؟ وہ کہاں کی ماہرانی ہے۔۔ وہ آۓ گی۔۔ اپنی ضرورت کو آئے گی۔۔ اسے آنا پڑے گا” وہ پھر سے ضدی لہجے ميں بولا۔
“اور اگر اس نے انکار کرديا۔۔ تم ٹھيک نہيں کررہے اشاذ۔۔ کيوں خوامخواہ ايک بے ضررسے بير لے بيٹھے ہو” وہ بے بسی سے بولی۔ آج تو وہ اسکے بھی قابو نہيں آرہا تھا۔

Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *