Classic Web Special

Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Episode 1 online reading


“ميں کون سا اسکو بولا کر کچھ غلط کرنے کی نيت رکھتا ہوں۔ صرف ديکھنا چاہتا ہوں کہ دوسروں کو حقير جاننے والی۔۔ خود کتنے پانی مين ہے”وہ سيگرٹ کو ايش ٹرے ميں مسل کر دانت پيستے ہوۓ بولا۔
سميرہ نے اپنے خوبرو سے بھائ کو ديکھا۔ ماں باپ کی دوری اچھے بھلے انسان کو سائيکو بنا ديتی ہے۔ اسکے پاس اشاذ کا سہارا تھا اسکی خاطر وہ سنبھل گئ تھی۔ مگر ماں کے جانے کے بعد اشاذ کو اس نے بڑی مشکل سے نارمل کيا تھا۔
کتنی بار سائيکٹريسٹ کے ساتھ اسکے سيشن کرواۓ۔ اب جا کر اس کا ڈپريشن سنبھلا تھا۔ ليکن پھر بھی کبھی کبھی کسی سوچ پر اٹک کر وہ ويسا ہی گيارہ سالہ اشاذ بن جاتا تھا جسے روميسہ چھوڑ کر اپنے شوہر کا بدلہ پورا کرنے کی غرض سے کسی اور سے شادی رچا کر ان دونوں کو چھوڑ گئيں تھيں۔
باپ نے تو پہلے ہی دوسری شادی کررکھی تھی۔ مگر ماں کے جانے کے بعد وہ دونوں بکھر گۓ تھے۔ نانا اور نانو کا ساتھ نہ ہوتا تو وہ دونوں کہيں کے نہ رہتے۔ کچھ سال پہلے نانو بھی فوت ہوچکی تھيں۔ اب صرف صفدر صاحب تھے۔
مگر اشاذ انکے بھی قابو نہيں آتا تھا۔ ماں کے جانے کا بدلہ شايد وہ ان سے ليتا تھا۔ ايک سميرہ ہی تھی جس کی سن ليتا تھا۔ اب تو اسکی بھی شادی ہوگئ تھی۔ پھر بھی وہ اسکا ہر حال مين دھيان رکھتی تھی۔
سميرہ نے ہی زبردستی اسے اس فيلڈ ميں لگايا تھا۔ وہ بہت تخليقی ذہن کا تھا۔ اور يہ بات وہ خود نہيں جانتا تھا۔ ارم سميرہ کی يونی فرينڈ تھی۔ دونوں نے ميس کام مين ماسٹرز کيا تھا۔
سميرہ کی تو اسکے بعد شادی ہوگئ۔ مگر ارم نے شوبز جوائن کرکے پروڈکشن کا کام سنبھال ليا۔ ايک دو بار اشاذ سے ملنے پر اسے اندازہ ہوا کہ وہ بہت اچھا ڈائريکٹر بس سکتا ہے۔
ارم نے سميرہ سے بات کی۔ اشاذ نے وقت گزاری کے طور پر اس کا ايک ٹيلی پلے ڈائريکٹ کيا۔ اور وہ ايسا مقبول ہوا کہ وہ جو ايم بی اے کے بعد کوئ بزنس کرنا چاہتا تھا اپنی فيلڈ سے ہٹ کر اس جانب آگيا۔ اور چںد سالوں ميں اپنا لوہامنوا ليا۔
اس سب ميں لگ کر وہ کسی حد تک اپنی نفسياتی گرہوں پر قابو پاچکا تھا۔ مگر ضد اسکی اب بھی کم نہيں ہوئ تھی۔ اور اسی ضد کی وجہ سے سوئ جب ايک بات يا نقطہ پر اٹک جاتی پھر وہاں سے نکلتی نہيں تھی۔
ريم بھی اسکی ضد بن گئ تھی۔ بس اب اسے اپنے روبرو لانا تھا۔ جيسے بھی سہی۔
سميرہ مايوس ہوکر چلی گئ تھی۔ جان گئ تھی کہ اب وہ اپنی ضد پوری کرکے رہے گا۔


Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *