یہ منظر سکینہ کے کمرے کا تھا۔ جہاں وہ احتجاج کرکے تھک چکی تھی۔ مگر کوئی سننے والا نہ تھا۔ تائی ایک دفعہ کمرے میں آئی تھی اور ایک نفرت بھری بات کہہ کر چلی گئی۔
“تمہاری قسمت ہے کہ تمہارے لیے میں اپنے بیٹے کو قربان کررہی ہوں۔۔۔یہ میری ہمت ہے کہ میں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ اگر تم اب بھی یہ ڈرامے بازی کروگی تو شمائلہ کا بھائی آیا ہوا ہے اس سے نکاح پڑھوا دیں گے تمہارا۔۔۔تمہارے پاس دو ہی آپشن ہیں، عارب یا شمائلہ کا بھائی!” بس یہ کہہ کر وہ چل نکلی تھیں۔ سکینہ بے یقین سی انہیں دیکھتی رہ گئی۔ ایک خوددار لڑکی کو یوں بے مول کردیا گیا تھا کہ وہ ٹکڑوں میں بٹ کے رہ گئی تھی۔ کتنے واویلے کئے پر کسی نے نہ سنی تھی۔
خالی آنکھوں سے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوۓ وہ پتھرا چکی تھی۔ ایک مجسمے کی طرح گھٹنے موڑے زمین پر وہ بیٹھی تھی۔ اس سے قبل کہ نکاح خواں اندر آتے ممانی نے آگے بڑھ کر اسے بیڈ پر بٹھایا۔ جو سوٹ پہنا تھا ، اسی کی چادر کا زرا سا گھونگھٹ نکال لیا۔۔۔تاکہ اسکے چہرے کی ویرانی باہر سے آنے والے نہ دیکھ پاتے۔
نکاح خواں کے ساتھ نمیر سیال اور ولید آۓ تھے۔ جیسے ہی اسکی رضا پوچھی گئی تو سکینہ سیال خالی دل، خالی آنکھوں سے اپنی گود کو دیکھے گئی۔ تہی داماں ہونا کسے کہتے ہیں، اس وقت کوئی سکینہ سیال سے پوچھتا۔
ممانی نے کندھے کے گرد بازو پھیلا کر اسکا سر چوما۔۔۔۔” اچھی بیٹیاں ہوتی ہیں سکینہ، جو اتنے برے وقت میں ماں باپ کی سنتی ہیں۔ چلو شاباش۔۔۔اپنی رضا دے دو۔” ممانی اسکی کیفیت سے واقف تھیں۔ جس قدر محبت سے ساتھ لپٹاتے ہوۓ وہ بولی تھیں اسنے سکینہ کو چونکا دیا ۔ وہ جیسے حال میں لوٹی تھی۔ کچھ لمحے قبل اس سے کچھ پوچھا گیا تھا، ذہن میں وہ کلمات دہراۓ ، پھر ایک پل کو اپنے گھونگھٹ سے نظر آتے تایا کے جھکے ہوۓ کندھوں کو دیکھا۔۔۔اور پھر وہ ہار گئی۔ ساری تاویلیں، ساری اکڑ، ساری خوداری۔۔۔دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ وہ ایک مشرقی لڑکی تھی، باپ دادا کے جھکے ہوۓ کندھے اس سے فیصلے کرواتے تھے۔۔اسنے اپنا محاسبہ کیا تو اندازہ ہوا وہ ہزار سکینہ سیال کو ایسی عزت کیلئے قربان کرسکتی تھی۔
Shab E Gham Ki Seher by Zainab Khan Episode 5
