اگر امتحان یہی ختم ہوجاتا تو شاید وہ سنبھل جاتی۔ مگر امتحان شاید شروع ہوۓ تھے۔ فرحت تو نجانے کونسے کمرے میں بند تھیں کہ نکاح کے بعد شام ہونے کو آئی تھی لیکن باہر نہ نکلی۔ گھر کے کام ملازمہ کے ساتھ مل کر شمائلہ اور دوسری کزنز کررہی تھیں۔ عصر کے قریب ممانی نے باجی کو اسکے کمرے میں بھیج دیا۔ انکے ہاتھ میں بڑے بڑے دو شاپر تھے۔ اور سکینہ ان پیکنگ والے تھیلوں کو دیکھ کر اندر تک سکڑ گئی تھی۔ وہ دانیہ کا لہنگا تھا، دوسرا تھیلا خالی تھا، لیکن اسے معلوم تھا دوسرے تھیلے میں معیز کی شیروانی تھی۔ دانیہ اور معیز کی عدم دلچسپی کے باعث ان دونوں نے ہی شادی کے جوڑے خریدے تھے، اور اب! کسے پتا تھا بہن اور ہونے والے بہنوئی کیلئے لینے والے کپڑے انہیں خود پہننے پڑیں گے۔ اسنے خالی آنکھوں سے شمائلہ کو دیکھا تو وہ نظریں چراگئیں۔
“اٹھو میری جان۔۔۔تھوڑی دیر تک رخصتی ہے، یہ لہنگا پہنو۔۔۔ردا، جاؤ بہن کی مدد کرو۔” بغیر نظریں ملاۓ، لہنگے والا تھیلا انہوں نے بیڈ کی پائنتی کے قریب رکھ دیا تھا۔ پھر خود ہاتھ میں پکڑے باس کو لیے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکھڑی ہوئیں۔ سکینہ نے انکے تاثرات پر ایک گہری سانس خارج کی۔
سب اندر کہیں توقع کررہے تھے کہ وہ مزید بھی احتجاج کرے گی، مگر ایسے نہ ہوا۔ ردا نے آگے بڑھ کر لہنگا پکڑا تو سکینہ بھی چپ چاپ اٹھ کھڑی ہوئی۔ شمائلہ جیولری باس وہی رکھ کر اسکے قریب آئی، اور اسکے گال پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔
“عارب بہت اچھا لڑکا ہے سکینہ، وہ تمہارا بہت خیال رکھے گا۔۔۔۔اسکے لیے اپنے دل سے ساری میل ختم کرکے جانا۔” محبت سے کہا تو سکینہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے انہیں دیکھا تھا۔ عارب اچھا تھا، بھلا اس سے زیادہ کون جان سکتا تھا یہ بات۔ سر جھکا وہ ردا کے ساتھ چل دی۔
قریباً دو گھنٹے تک جیسے تیسے اسے سادہ سا تیار کردیا گیا۔ بیوٹیشن والی پرفیکشن تو نہ تھی، مگر سکینہ سیال ایسی بے ترتیبی میں بھی خوبصورت لگ رہی تھی۔ الجھا الجھا، بکھرا بکھرا سا حسن، زیادہ پرکشش لگتا ہے۔ وہ بھی اپنی بے ترتیبیوں کے ساتھ خوبصورت لگ رہی تھی۔ جیسے ایک دلہن کو لگنا چاہیے۔ مغرب سے قبل ہی اسے عارب کے کمرے میں لاکر بٹھادیا گیا تھا۔ صاف ستھرا کمرہ، جہاں وہ بغیر اجازت کے جب چاہے دندناتی ہوئی آتی تھی اب وہاں بیڈ پر عجیب سی گھٹن محسوس کررہی تھی۔ ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ رہی تھیں۔ کچھ پل گزرے کہ شمائلہ باجی دروازہ ناک کرتی اندر آئی۔ سکینہ کو بے طرح کی شرمندگی ہوئی۔ بھلا وہ ایسی کب تھی کہ عارب کے کمرے میں یوں بیٹھتی، اور آنے والے اس سے اجازت مانگتے۔
“کیا ہوا سکنیہ۔۔۔پریشان کیوں ہو؟” اسکے پاس بیٹھتے ہوۓ وہ بولیں۔ سکینہ نے بے اختیار تھوک سے گلہ تر کیا۔
“وہ۔۔۔میں!” زبان یوں لڑکھڑا رہی تھی جیسے بولنا سیکھا ہی نہ ہو۔
“کیا ہوا ہے میرے بچے کو۔۔۔مجھے بتاؤ؟” انہوں نے محبت سے اسکے گال پر ہاتھ رکھا۔
“اماں کیسی ہیں۔۔۔کیا وہ ٹھیک ہیں؟” اسنے سہمے ہوۓ انداز میں پوچھا تھا۔
“ہاں۔۔۔ماشاءاللہ ، پہلے سے بہتر ہیں۔” اسی محبت بھرے انداز میں کہا تھا۔ سکینہ دوبارہ پزل سی الفاظ بننے لگی۔ پھر جھکے ہوۓ سر سے ہی پوچھا۔
“کیا انہیں۔۔۔ہمارے نکاح!” وہ پوری بات کہہ نہ پائی۔ ادھوری بات سے ہی انکی طرف دیکھا تھا۔ شمائلہ باجی اسکے انداز پر مسکرادی۔
“ابھی نہیں بتایا۔۔۔لیکن چچا کو علم ہے، بلکہ وہ کچھ دیر پہلے ہی واپس گئے ہیں۔ ” شمائلہ کی بجھی ہوئی مسکراہٹ پر وہ پہلے ہی مایوس ہوچکی تھی انکے اس انکشاف پر حیران رہ گئی۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی۔ اسکا باپ نکاح سے لے کر رخصتی تک کہیں بھی اسکے قریب نہ تھا۔ لیکن وہ تھے، وہاں موجود تھے۔
“اوہو۔۔۔میں بھول ہی گئی۔ باسط کیلئے دودھ ابالنے کو رکھا تھا، بھول گئی میں۔ تم بیٹھو، میں اب کچن ایک دفعہ دیکھ لوں۔” وہ کہتے ہی اٹھ کھڑی ہوئیں تھی۔ سکینہ چپ چاپ سرہلایا۔ پھر وہ اسکے سر کو چومتے ہوۓ باہر چلی گئیں ۔ ایک نظر اسنے دروازے کو دیکھا، پھر دور رکھے قد آور ڈریسنگ ٹیبل کو دیکھا۔ کتنا آکورڈ لگ رہا تھا سب۔ بجھا ہوا دل، زبردستی کا رشتہ یا اسکا وجود۔ وہ فیصلہ نہ کرپائی۔
کئی لمحے، یا شاید گھنٹے گزرے، دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ چونکی۔ وہ یوں مجسمہ بن چکی تھی کہ اٹھ کر کپڑے بھی نہ بدل سکی۔ عارب سفید شیروانی پہنے، بکھرے بالوں کے ساتھ اندر آیا تھا۔ ایک اچٹتی نظر اس پر ڈال کر واشروم میں چلا گیا۔ سکینہ مکینکی انداز میں واشروم کے بند دروازے کو دیکھے گئی۔ قریباً پندرہ منٹ بعد وہ سفید شلوار قمیض پہن کر باہر نکلا تھا، ایک ہاتھ سے تولیہ بالوں پر رگڑتے ہوۓ ڈریسنگ کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ اب یہاں سے وہ سکینہ کو دیکھ سکتا تھا، اور وہ دیکھ رہا بھی تھا۔ جو برف کا مجسمہ بنے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔
“کیا تم چاہتی ہو کہ میں تمہارے سامنے بیٹھ کر محبت بھرے مظاہرے پیش کروں؟”آئینے میں ہی اسے دیکھتے ہوۓوہ بولا تھا۔ پھر تولیہ لیے سٹینڈ کے قریب آیا۔ زبان کی سردی جاری تھی۔”اور تمہاری تعریف میں زمین آسمان ایک کردوں؟” تولیے کو سٹینڈ پر بچھایا، پھر اسکی طرف پلٹا۔ سکینہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔ لہجہ ٹھنڈا تھا، یا طنزیہ وہ فیصلہ نہ کرپائی۔
“نہیں تو! ” بے اختیار اسکی زبان سے نکلا تھا۔ عارب نے ایک افسوس بھری نظر اس پر ڈالی۔
“تو پھر ابھی تک ممی بن کے کیوں بیٹھی ہوئی تھی؟” اسکی بات پر سکینہ نے بے اختیار سر جھکادیا۔ کیا کہتی، شمائلہ باجی تو نجانے کتنی نصیحتیں کرکے گئی تھی۔ ہدایتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا اور دو گھنٹے جاری رہا تھا۔ باری باری شادی شدہ خواتین آتیں اور اسے سمجھاتی رہتیں، ایک جاتی دوسری آجاتی، پہلی والی ” ہاں تم سیانی ہو، اسے سمجھاؤ۔۔۔نکاح چاہے جیسے بھی حالات میں ہوا ہو، نکاح تو نکاح ہوتا ہے۔ ” کہتی اور اٹھ کر دور بیٹھ جاتی یا باہر نکل جاتی۔ وہ پہلے تو سپاٹ انداز میں یہ ہداتیں سنتی رہی، پھر آہستہ آہستہ یہ ضرور ہوا کہ کچھ باتیں ذہن سے چپک گئیں ۔
“سکینہ یار اٹھو، یہ تنمبو بدلو۔۔۔اور مجھے ایک کپ چاۓ بنادو۔” وہ تھکا ہارا سا صوفے پر جا کر لیٹ چکا تھا۔ سکینہ چونکی، پھر جلدی جلدی سے اٹھ کر ڈریسنگ روم میں بند ہوگئی۔ قریباً دس پندرہ منٹ بعد کپڑے بدل کر، چہرہ دھو کر وہ باہر نکلی تھی۔ عارب موبائل سکرین پر تصویریں دیکھ رہا تھا۔ تھری سیٹر صوفہ اس طرح سے پڑا ہوا تھا کہ عارب کے سر کے بالوں والا حصہ نظر آتا، بلکل عین اسکے پیچھے دس قدموں کے فاصلے پر وہ کھڑی تھی۔ بے اختیار ایک اچٹتی نظر اسنے عارب کے ہاتھ میں پکڑے موبائل کی سکرین پر ڈالی تھی۔ ایک خوبصورت لڑکی کی تصویر تھی۔ دس قدم کے فاصلے سے بھی وہ کہہ سکتی تھی کہ اسکی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ کم از کم سکینہ سے تو تھیں۔ پھر وہ بالوں کی چٹیا کیے بغیر ڈھیلا سا کیچر لگاکر، اچھی طرح سر پر دوپٹہ لیے باہر نکل گئی۔ عارب نے سکرین سے نظر ہٹا کر دروازے کو دیکھا تھا۔