سادہ سا لان کا جوڑا پہنے، وہ کچن میں اسکے لیے چاۓ بنارہی تھی۔ چھوٹے ماموں کی دو بیٹیاں اور شمائلہ باجی ایک طرف موڑے پر بیٹھی تھیں۔ اسنے ایک خاموش، بجھی ہوئی مسکراہٹ انکی طرف اچھالی اور چاۓ بنانے لگی۔ ایک دن میں دنیا بدلنا کسے کہتے ہیں اس وقت کوئی سکینہ سے پوچھتا۔
وہ تخت سے تختے تک پہنچنے والے دو کردار تھے، اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ جس چیز کو سب انکا زوال سمجھ رہے تھے وہی انکا آغازِ عروج تھا۔ نو دس گھنٹے کی قیامت کے بعد بھی وہ یوں آرام دہ انداز میں کھڑی اس شخص کیلئے چاۓ بنارہی تھی، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔جیسے پچھلے چند دن انتہائی آرام سے گزرے تھے، معمول سے دن۔ جہاں اٹھنا ،بیٹھنا، کھانا، پینا اور محض سونا تھا۔ کوئی حادثہ، کوئی واقعہ کچھ بھی نہ ہوا تھا۔
یا تو وہ پاگل تھی۔۔۔یا وہ شخص بہت اہم تھا۔ اتنا کہ سکینہ اسکے معاملے میں اپنی انا کو نہیں لائی تھی۔ نہ ہی وہ لاسکتی تھی۔ ہاں یہ ضرور ہوا تھا کہ جب سے نکاح ہوا تھا سکینہ کی زبان پر ایک قفل سا لگ چکا تھا۔ وہ بہت باتونی سی لڑکی تھی۔ اس حادثے نے جیسے قوت گویائی کو سلب کردیا تھا۔ ابھی بھی خاموش سی وہ ساس پین کے ہینڈل کی لکڑی کی سطح کو ناخن سے کھرچ رہی تھی جب پیچھے سے کھٹکا ہونے پر چونکی۔ مڑ کر دیکھا تو تائی تھی۔ اسنے خاموشی سے چہرہ موڑ لیا۔ تائی شمائلہ سے چھوٹی موٹی بات کررہی تھی۔ اور وہ دعا کررہی تھی کہ چاۓ بس جلدی جلدی بن جاۓ۔ تاکہ وہ ایسی جلتی آنکھوں کے شر نکل کر اندر چلی جاتی۔
“کیا کررہی ہو؟” کاٹ دار لہجہ تھا۔ جیسے زبان سے ہی اسکے ٹکڑے کردیں گی۔ سکینہ ایک پل کو چونکی تھی، وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اب فرحت بیگم کا رخ سکینہ کی طرف ہی تھا۔ لیکن اس کا دل نہ کیا کچھ بولنے کو، زیادتی کرکے وہ سب چڑھائی کررہے تھے۔ وہ مظلوم ہوکر اتنا تو کرسکتی تھی۔
“میں کچھ پوچھ رہی ہوں ڈھیٹ لڑکی تم سے!” وہ دوبارہ اسی انداز میں بولی تھیں۔ شمائلہ نے چھوٹے ماموں کی بیٹیوں کو خاموشی سے باہر چلے جانے کا اشارہ کیا۔ پچھلے دو دنوں سے اس گھر میں رہتے ہوۓانہیں سکینہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی ہوچکا تھا۔ ابھی بھی فرحت کے ارادے کچھ نیک نہ تھے۔
سکینہ نے ایک گہری سانس بھری ۔
“آپ کے بیٹے کیلئے چاۓ بنارہی ہوں۔” بے نیازی نہیں تھی، لیکن اسکا انداز ایسا ہی تھا۔ حالانکہ یہ کہتے ہوۓ ہی وہ اندر تک شرمندگی محسوس کررہی تھی۔ مگر سکینہ سیال کا لہجہ اتنی جلدی لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتا تھا۔ وہ شرمندگی محسوس کررہی تھی تو یہ بات اسکے انداز و اطوار سے کبھی بھی نہیں جھلک سکتی تھی۔
“ڈرامے تو یہ بڑے بڑے کررہی تھی کہ بڑی نیک ہو تم، اب فٹا فٹ ہی نیک نامی اتر گئی، کتنے رنگ ہیں تمہارے؟” اسکے نارمل انداز کو چوٹ کرتے ہوۓ وہ بول رہی تھیں۔سکینہ نے ان سنا کردیا۔ نہ ہی اس میں اتنی ہمت تھی کہ کسی قسم کی کوئی جوابی کاروائی کرتی۔ بدنام لڑکی کو اپنے چاند سے بیٹے سے بیاہ چکی تھیں وہ، اتنا انکا سھٹیانا بنتا تھا۔ عارب سیال کی دلہن تو انگرزنی ہونی تھی۔۔یہ دوغلی لڑکی کیونکر انکے بیٹے کے نکاح میں آگئی تھی۔
“سکینہ۔۔۔جاؤ تم کمرے میں، میں چاۓ بھجوادیتی ہوں۔” شمائلہ اپنے بیٹے کو گود میں لیے بیٹھی تھی، فرحت کے ارادوں کو بھانپ کر بولی تاکہ کوئی بدمزگی نہ ہوتی۔ سکینہ نے ایک خاموش نظر ان پر ڈالی، پھر دوبارہ مڑ گئی۔
“جارہی ہوں آپی۔۔چاۓ بھی بس بن گئی ہے۔” خاموش سا، سادہ بجھا ہوا لہجہ تھا۔ شمائلہ کو بے اختیار اس پر ترس سا آیا۔
“کل سے میں اپنے بیٹے کے سارے کام خود ہی کروں گی، اللہ جانے کونسا تعویز گھول کر پلایا ہے اس نحوست کی ماری نے۔۔۔۔اندھا کردیا ہے میرا بیٹا۔” کرسی کھینچ کر وہ زہر اگلتی بیٹھ گئیں۔۔یعنی پورے سیشن کی تیاری تھی۔
“ممانی۔۔۔چھوڑیں ان باتوں کو، گھر کی بات ہے ۔ سکینہ اتنی پیاری ہے کہ میری اپنی اماں کی خواہش تھی یہ انکی بہو بنے۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے اتنی نیک لڑکی مل گئی۔”شمائلہ نے بڑے صلح جو انداز میں کہا تھا۔ لیکن اسکا کہا تو جیسے فرحت کے سر پر لگا ، تلوؤں پر بجھنے کے برابر تھا۔
“نیک۔۔۔ہونہاں، بھئی نیک لڑکیاں ایسی نہیں ہوتیں۔ یہ جو موسمی نیک نامی ہے نا، یہ چند دن کا بھوت ہے۔ جب اترگیا تو دیکھنا۔ کہاں کی نمازیں، کہاں کی نیک نامی۔” شمائلہ کی طرف چہرہ کیے، جیسے وہ سکینہ کی نہیں کسی اور کی بات کررہی تھیں۔۔سکینہ کا دل اندر تک کٹ سا گیا۔ دل اتنا بجھا ہوا تھا کہ کوئی جوابی کاروائی کرنے کے بجاۓ باہر کی راہ لی۔
“یہ چاۓ ادھر ہی رکھ دو، میں خود اپنے بیٹے کو دوںگی۔۔۔تمہیں اب وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ جہاں پہلے سوتی وہی جاؤ، عارب کے کمرے کے اردگرد بھی مت بھٹکنا۔” شمائلہ سے نظریں ہٹا کر نفرت اور کاٹدار انداز میں اسے کہا تھا۔ سکینہ نے ایک بے بسی بھری نظر ان پر ڈالی ۔ طبعیت کچھ ایسی بوجھل ہورہی تھی کہ دل کیا وہی بیٹھ رونا شروع کردے۔ بے اختیار چاۓ کا کپ اسنے ٹیبل پر رکھ دیا ۔ ہاتھوں میں کپکپاہٹ ایسی تھی کہ اگر مزید کپ ہاتھ میں رہتا تو چاۓ ہاتھ پر چھلک پڑتی۔ کوئی اتنا برا بھی کسی کے ساتھ کرتا ہے۔ اس سے قبل کہ اپنی صفائی میں کانپتے لب ہلتے، دروازے کے فریم میں کھڑا وہ بولا۔
“لیکن مجھے اس وقت اپنی بیوی کے علاوہ اور کسی کی ضرورت نہیں اماں۔۔۔کسی کی نہیں!” سرد، زخمی، بکھرا ہوا انداز تھا۔ جہاں شکست و ریخت کے آثار تھے۔ سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ وہ اندر آیا تھا۔ ایک نظر سکینہ پر ڈال کر، ماں کو دیکھا۔ جو اسکے آنے پر پہلے ہی حیرت زدہ رہ چکی تھیں، اوپر سے آتے ہی اسکا سکینہ کا ہاتھ پکڑ لینا، فرحت بیگم کو ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔
شمائلہ کے چہرے پر ایک سکون سا اتر آیا ۔
“اب تم ماں پر اسے فوقیت دوگے؟ اس دوغلی لڑکی کو۔”انہوں نے ایک تضحیک آمیز نظر اس پر ڈال کر کہا ۔
سکینہ نے محسوس کیا تھا فرحت کے دوغلی کہنے پر عارب نے اسکے ہاتھ پر گرفت مضبوط کی تھی۔
“ہاں۔۔۔وہی دوغلی لڑکی اماں، جس کے ساتھ آپ نے ، اپنے حرام خور بیٹے کا نکاح کروایا ہے۔” وہ یہ لفظ نہیں کہنا چاہتا تھا، مگر الزامات بھی تو یہی تھے، پھر وہ کیسے نہ یہ زہر باہر نکالتا، جو اسے اندر ہی اندر کاٹ رہا تھا۔
“اور ہاں۔۔۔پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، میں پرسوں اپنی بیوی کو لے کر یہاں سے جارہا ہوں۔۔۔آپ کو اپنی لاڈلی اولادیں مبارک ہو اماں۔۔۔ہمیں باغی بنانے کا شکریہ!” اسکی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آچکی تھی۔ مگر اسکے باوجود اپنے آپ کو حتی المقدور نارمل رکھنے کی کوشش کی تھی ۔ ایک خاموش نظر ماں پر ڈال کر اسنے ایک ہاتھ سے چاۓ کا کپ پکڑا، دوسرے ہاتھ میں سکینہ کا ہاتھ تھا۔ اسے اپنے پیچھے لیے وہ مضبوط قدم اٹھا تا باہر نکل گیا۔ سکینہ ٹرانس کی کیفیت میں اسکے ساتھ کھینچی چلتی گئی۔
مرد کی ہمراہی میں چلنے والی لڑکی کیا اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے جتنی سکینہ اس وقت اپنے آپ کو عارب کے پیچھے قدم قدم چلتے ہوۓ محسوس کررہی تھی۔ کچھ دیر قبل وہ ڈھے چکی تھی، کسی کھنڈر ویران محل کی دیوار کی طرح۔۔۔۔۔مگر اب اسکی ہمراہی میں ایسا کیا تھا کہ سکینہ سیال کیلئے اپنے پیروں پر وزن ڈالنا بھاری نہ پڑ رہا تھا۔ وہ محض اسکے الفاظ پر دلیر ہوگئی تھی۔
یہ دل کہاں جارہا تھا، کس راستے میں نکل پڑا تھا۔۔۔۔کیسے، کہاں، کس موڑ پر آکر اسنے انداز بدل لیا تھا۔
الگ لے ، الگ ساز ، الگ دھڑک ۔۔۔۔۔ایسے پہلے تو کبھی نہ ہوا تھا۔
اسنے ہزاروں دفعہ سکینہ کو بچایا تھا۔۔کبھی دانیہ سے، کبھی داؤد کی ڈانٹ سے، کبھی زلیخہ کے طعنوں سے تو کبھی فرحت کی پھٹکار سے۔ لیکن کبھی ایسے تو نہ ہوا تھا کہ دل کسی بنجر زمین کی طرح ایک دم شاداب ہوگیا ہو، کسی ویران محل کی طرح ایک دم آباد ہوگیا ہو، جیسے اس محل کا بادشاہ لوٹ آیا تھا۔۔۔عجیب تھا نا سب۔
دل کے فیصلے عجیب ہوتے ہیں۔ نہ یہ وقت دیکھتا ہے، نہ یہ جگہ۔۔۔جب دھڑکنا شروع کرتا ہے تو ایسے دھڑکتا ہے گویا زندگی ہی یہی ہو۔
Shab E Gham Ki Seher by Zainab Khan Episode 5
