Uncategorized

The last night by Zainab nasar khan Episode 5

پیچھے بیٹھے کسی شخص کی جان پر بن چکی تھی۔ کیا وہ شہریار کے سرکش جذبوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے والی تھی؟ کیا وہ اتنی عام تھی؟ کیا روحان حیدر کی محبت اتنی بے بس و لاچار تھی؟ جبکہ دوسری طرف کچھ اور ہی تاثرات تھے۔وہ جب سے آئی تھی شہریار نے ایک بات نوٹ کی تھی کمالہ کے لہجے میں اور مسکراہٹ میں ایک سرد سا تاثر تھا۔ جسے سمجھنے سے فی الوقت وہ قاصر تھا۔”تمہیں پتا ہے ایک عورت مضبوط کب ہوتی ہے؟” کہنیاں ٹیبل پر رکھ کر ہاتھوں کو باہم ملاۓ وہ آگے کو ہوکر بیٹھی اور اپنے ازلی انداز میں بولی۔”نہیں پتا؟ چلو کوئی بات نہیں! میں بتاتی ہوں تمہیں۔ ایک عورت مضبوط اس وقت ہوتی ہے جب وہ اکیلی ہو۔جب اس کے پاس (وہ مزید قدرے آگے ہوئی اور انگلی پورے کیفے کے گرد گھماتے ہوۓ آخر میں اس کی طرف موڑی ) کوئی نام نہاد مرد نہ ہو۔ میں کسی مرد کو برا نہیں کہوں گی۔ لیکن ایک مضبوط عورت اگر صرف اکیلے رہ کر اس بات کو پہچان سکتی ہے کہ اس کی پاور کیا ہے تو کسی ڈھکن جیسے مرد کی ضرورت پھر کیوں؟ میں اس بات کو سمجھی نہیں۔” اس کی ادائیں، بات کرنے کا طریقہ اور انداز ایسا تھا کہ پیچھے بیٹھے روحان نے ایک گہرا سانس خارج کیا اور ناچاہتے ہوۓ بھی مسکرادیا ۔ بے اختیار امڈنے والی مسکراہٹ کو روکنے کیلیے چہرے کے سامنے کافی سے لبالب کپ کیا۔”میں سمجھا نہیں۔ تم ایسے کیوں کہہ رہی ہو۔” شہریار کے کانوں کی لوئیں تک سرخ ہوگئیں۔ وہ بے عزت ہورہا تھا۔ کمالہ اسکا لال ٹماٹر چہرہ دیکھ کر طنزیہ مسکرادی۔”کہنے کو تم مجھ سے محبت کے دعوےدار ہو اور میری ذرا سی بات پر تمہارے کانوں کی لوئیں تک سرخ ہوچکی ہیں۔ ایسا کیوں؟” ابرو اٹھا کر بڑی ادا سے پوچھا۔ اب کے پیچھے بیٹھے شخص سے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہوگیا تو ایک دم کھانسنے لگا۔ کمالہ نے تیکھی نظر سے اس طرف دیکھا۔ کوئی رئیس زادہ بیٹھا تھا اور یقیناً ان کی باتوں کو انجواۓ کررہا تھا۔”نہیں ایسا نہیں ہے کمالہ۔ مجھے نہیں لگتا تم مجھے سمجھ پائی ہو۔ لیکن جیسا تم سوچ رہی ہو ویسا بھی نہیں ہے۔ مجھے لگا شاید تمہیں میری ضرورت ہو۔ اسی لیے آگیا۔” اس نے بات بنانی چاہی۔ مگر اس دفعہ کمالہ کا جیسے ضبط ٹوٹا۔ ہاتھ زور سے ٹیبل پر رکھا۔ پھر اردگرد دیکھا۔ چند لوگ انکی طرف متوجہ ہوۓ لیکن اس کا دھیان تو صرف سامنے بیٹھے شخص پر تھا۔”تمہیں کیا لگتا ہے؟ مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے یا ازل سے پاگل ہوں کہ آٹھ سال بعد تک تمہارے رحم و کرم کا انتظار کرتی رہوں اور جب تم آؤ تو کسی مرید کی طرح تمہارے پاؤں میں پڑ جاؤں؟” وہ آہستہ مگر سرد ترین لہجے میں بات کررہی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے والی شادابی ختم ہوچکی تھی۔ اب وہاں پر ماضی کے آٹھ سالوں کی مسافت تھی جو اس کے چہرے سے عیاں ہورہی تھی۔”مجھے اپنی خوشی میں نہیں، غم میں تمہاری ضرورت تھی۔ آٹھ سال پہلے جب میں منہ کے بل گری تھی تو اس وقت مجھے تمہاری ضرورت تھی۔ ان آٹھ سالوں میں، میں کئی دفعہ گری ہوں اور جب بھی گری ہوں خود اکیلے اٹھنا پڑا ہے۔ تمہیں پتا ہے کیا؟ جب مجھے تم سب کی ضرورت تھی، میرے نام نہاد رشتوں کی ضرورت تھی، جب میں اکیلی تھی تب میرے پاس صرف میں تھی۔ تو آج جب میں خوش ہوں، مطمعین ہوں ، تو تمہارا یا کسی اور مرد کا ساتھ لینا۔۔۔ یہ غلط ہوجاۓ گا۔ جب کل غم میں میرے پاس صرف میں تھی تو آج خوشی میں میرے پاس میں کیوں نہ رہوں۔ میں اپنے آپ پر تم جیسے دو کوڑی کے انسان کو فوقیت کیوں دوں؟ کوئی وجہ ہے؟” وہ بولنے پر آئی تو اتنا بولی کہ جو لوگ ان کی طرف متوجہ تھے وہ اس کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔ شہریار ہونق سا اسے دیکھے گیا۔ بھینچے لب، ماتھے پر بل اور سپاٹ چہرے کے ساتھ وہ مجمعے میں بے عزت ہورہا تھا۔”تم غلط کررہی ہو۔” اردگرد دیکھ کر اس نے دبے لہجے میں کہا۔”اور جو تم نے کیا؟ مجھے تو چھوڑ دیا کم از کم جسے مجھ پر فوقیت دی تھی اسے تو ساتھ رکھتے۔ اسے بھی ویسے ہی چھوڑدیا جیسے مجھے۔۔۔” وہ تلخی سے مسکرائی۔”یو نو واٹ کچھ سال پہلے تک میں نے واقعی تمہیں بہت مس کیا۔ کبھی کبھی تو ایسے لگتا تھا کہ دل کی جگہ کوئی پھوڑا ہے اور ہر وقت کوئی اسے تمہاری یاد سے کھرچتا رہتا ہے۔ میں بیمار ہوگئی۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ مجھے پینک ڈس آڈر ہورہا ہے۔ میری پوری باڈی اس پینک ڈس آڈر کے دباؤ میں آرہی تھی۔ آسان لفظوں میں میری باڈی کا سو فیصد حصہ تمہیں چاہتا تھا اور تم نہیں تھے تو بیمار پڑ گئی تھی میں۔ لیکن پتا ہے کیا؟” آگے ہوکر اس نے ناخن سے میز پر دستک دی۔ “مجھے اس وقت بھی اکیلے اٹھنا پڑا۔ اس بیماری سے مجھے اکیلے ہی نکلنا پڑا۔ کوئی نہیں آیا، نہ تم! نہ کوئی اور رشتے دار۔۔۔ آج بھی کہیں نا کہیں مجھے وہ پینک اٹیکس آتے ہیں۔ لیکن اب مجھے ان سے ڈیل کرنا آگیا ہے۔ میں لڑنا سیکھ چکی ہوں۔ دوبارہ آسان الفاظ میں سمھجاؤں تو میں پچاس فیصد ٹھیک ہوچکی ہوں۔ اور وہ پچاس فیصد حصہ مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ان لوگوں سے روابط قائم کروں جو میری تکلیف میں پیٹھ پھیر کر چل دیے۔ جب تنہائی میری اکیلی کی تھی تو خوشی میری اکیلی کی کیوں نہ ہو؟” بولتے بولتے اس کی آواز لڑکھڑائی، جسم پر کپکپی طاری ہوئی، مگر وہ رکی نہیں۔ اسے رکنا نہیں تھا۔ اگر آج رک جاتی اور اسکے سامنے ہار مان جاتی تو شاید ہال میں بیٹھی ان سب لڑکیوں کی عزت نفس مرجاتی جو اسے کسی موٹیویشنل سپیکر کی طرح سن رہی تھیں۔ اسے وہاں بیٹھے ہر شخص کو بتانا تھا کہ عورت اگر اکیلی رہنا سیکھ جاۓ تو اسے کسی کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسے مردوں سے نفرت نہ تھی۔ مگر ابھی اس دنیا میں شہریار جیسے مرد تھے جو عورت کو ٹشو پیپر کی طرح سمجھتے تھے۔ اسے اس کی اکڑ توڑنی تھی۔ شہریار ہونق بنا اپنی بے عزتی پر کچھ بول بھی نہ پا رہا تھا۔ شاید اس کی زبان ساتھ دینا چھوڑ چکی تھی۔ اسنے کچھ بولنا چاہا کہ کمالہ نے ہاتھ سے اشارہ کرکے اسے بولنے سے روکا۔ “اب کی بار ایسا نہیں ہوگا مسٹر شہریار احمد! لیٹ می کلئیر یو ون تھنگ، میں کمالہ ہاشم ہوں۔ مجھے تم مینی پلیٹ نہیں کرسکتے۔ نہ ہی مجھے کسی مرد کا آپشن بننا گوارہ ہے۔ آئندہ سے مجھے یا میری ماں سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کرناورنہ تمہاری ہڈیاں میں خود توڑوں گی، اور میں۔۔۔۔۔ایسا۔۔۔کروں گی۔” آہستہ آہستہ کرکے پورا کیفے ان کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔ وہ جیسے آئی تھی ویسے ہی اٹھی، بیگ اٹھایا، گاڑی کی چابی نکالی اور چلتے چلتے آنکھوں پر شیڈز لگا کر دیکھتے ہی دیکھتے کیفے سے باہر چلی گئی۔ بہت سی نظریں دور تک اس کا پیچھا کرتی رہیں۔ کچھ حیرت سے، کچھ متاثر ہوکر اور کچھ نفرت سے۔ آپ اچھے الفاظ بول سکتے ہیں تو یہ کبھی مت سمجھیں کہ اچھے الفاظ لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ بعض ذہن اس قدر کندھ ہوتے ہیں کہ انہیں آپ کے الفاظ ردی کی طرح لگتے ہیں۔ وہ سنتے تو ہیں مگر جلد ہی پھینک دیتے ہیں۔ اس سب کے بعد کوئی دھیرے سے مسکرایا تھا، نرم سی مسکان لیے وہ اسے گاڑی میں بیٹھنے تک دیکھتا رہا تھا۔

____________

Nims

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,