لہیم جاہ ہاتھ میں آئی پیڈ لیے مسلسل ہلتے اس سرخ نشان پہ نگاہیں گاڑے ہوئے تھا۔ آئی پیڈ کی اسکرین پہ دکھائی دیتا وہ سرخ دھبہ مسلسل ان کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا تھا۔”گاڑی اور تیز چلاؤ جیکسن! مجھے کسی بھی قیمت پر اس آدمی تک پہنچنا ہے۔“ جیکسن نے پہلے سے تیز بھاگتی گاڑی کی رفتار مزید تیز کر دی تھی۔”ہمارے پاس اس کا فون نمبر ہے لہیم! وہ جہاں بھی جائے گا ہم اس تک پہنچ جائیں گے۔“ اس کی ذہنی حالت کا اندازہ لگاتے، عبدالمعید نے رسان سے اسے سمجھانا چاہا تھا۔ شجاع فرید بھی سانس کھینچے، سر جھکائے بیٹھا تھا۔ شدید تناؤ کی کیفیت تھی۔”تم سنبھالو خود کو اور یہ آئی پیڈ مجھے دے دو۔“ اس نے لہیم کے ہاتھ سے آئی پیڈ لینا چاہا تھا۔ اس نے ہاتھ جھٹک کر اسے ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا۔ وہ اسے بے چینی سے دیکھ کر رہ گیا تھا۔ اگرچہ اب اس سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی کہ:”وہ لڑکی کون تھی؟ اس سے کیا تعلق تھا؟“ لیکن وہ پھر بھی لہیم جاہ کے منھ سے سب سننے کا خواہاں تھا۔ جس کے وجود کا ایک ایک عضو چلا چلا کر اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ اس لڑکی سے محبت کرتا ہے جب کہ زبانِ حال سے کہتے ڈرتا تھا۔”تمھیں اب بھی یاد نہیں آیا کہ یہ ضربان کرمانی کون ہے؟“ عبدالمعید نے بات شروع کی تھی۔”نہیں!۔“ یک لفظی جواب دیتے اس نے جتایا کہ وہ ابھی مزید کچھ کہنے سننے کے موڈ میں نہیں ہے۔ ”تمھیں اپنے حافظے پر زور دینا چاہیے۔“”میں کسی ضربان کرمانی کو نہیں جانتا۔“ اس نے ترشی سے کہتے اسے گھورا بھی تھا جب کہ ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے شجاع فرید کا جھکا سر اٹھ گیا تھا۔ عبدالمعید نے اس کا چونکنا اور ذہن پر زور ڈالنے کا سا انداز ملاحظہ کیا تھا۔”سر! آپ ضربان کرمانی کو نہیں جانتے لیکن راجعہ کرمانی کو کیسے بھول سکتے ہیں؟“ اس کی یادداشت کھنگالنے کے چکر میں، شجاع فرید نے بڑے غلط موقع پر اس نام کا حوالہ دیا تھا۔”کیوں کہ میں اسے یاد رکھنا ہی نہیں چاہتا۔ جن سے میرا واسطہ نہ ہو میں انھیں اپنے ذہن سے محو کر دیتا ہوں۔“ وہ اسی تلخی سے گویا ہوا تھا۔ شجاع فرید نے عبدالمعید کا اشارہ پا کر مزید کچھ کہنے سے گریز برتا تھا البتہ لہیم جاہ کے دل و دماغ میں بڑی زور کی ہل چل ہوئی تھی۔ ”راجعہ کرمانی، ضربان کرمانی۔۔۔“ اس کا ذہن جوڑ توڑ میں الجھا تھا۔ لاشعور میں دبی سالوں پرانی یاد سے زمانوں کی چڑھی گرد چھٹنے لگی تھی لیکن پھر بھی ابھی سب دھندلا سا ہی تھا۔ اسی وقت آئی پیڈ پہ دکھائی دیتا سرخ نشان ایک مقام پر پہنچ کر رک گیا تھا۔ اور ان سے دس پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود تھا۔ ”تم گاڑی سے باہر نہیں نکلو گے لہیم! جو کرنا ہے میں اور شجاع فرید دیکھ لیں گے۔“ اب کی بار اس نے اس کے ہاتھ سے آئی پیڈ چھین لیا تھا۔”تمھیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں ایک چھوٹے بچے کی طرح تمھاری ہر بات مان لوں گا اور چپ چاپ نامردوں کی طرح یہاں بیٹھا رہوں گا؟“ وہ آنکھوں میں خون اتر جانے کی حد تک سنجیدگی سے اس سے استفسار کر رہا تھا۔”تم ابھی اپنے حواس میں نہیں ہو لہیم!“ عبدالمعید نے نرمی سے سمجھایا تھا۔”مجھ سے زیادہ اس وقت کوئی بھی اپنے حواس میں نہیں ہے۔ میری پستول کہاں ہے شجاع فرید؟“ اس کی بات نہ ماننے سے انکار کرتے، اس نے شجاع فرید سے کہا تھا۔ اس نے چپ چاپ گاڑی کے خفیہ خانے سے اس کی لائسنس شدہ پستول نکال کر اس کے حوالے کی تھی۔ لہیم جاہ نے پستول ہاتھ میں لے کر، اسے گھما کر اس کا لاک چیک کیا۔ ”زندگی اور موت کی بازی میں، تم کیا چاہتے ہو کہ میں اپنے لیے لڑنے تم سب کو اکیلا بھیج دوں؟ اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔ لہیم جاہ نے چوڑیاں نہیں پہنی ہوئیں۔“ گاڑی رک چکی تھی۔ اس نے سیٹ بیلٹ کا بٹن دبایا تھا۔”تم باہر نہیں آؤ گے شجاع فرید!“ شجاع فرید کا سیٹ بیلٹ کھولنے کے لیے بڑھتا ہوا ہاتھ یک لخت ساکت ہوا تھا۔ اس نے ایک جھٹکے سے سر گھمایا، بے یقینی سے لہیم جاہ کو دیکھا تھا جو اس سے اپنے مالک کی حفاظت کا حق چھین کر بڑے سکون سے گاڑی سے اتر رہا تھا۔”سر! مجھے۔۔۔“”شجاع فرید!“ اس کی تنبیہ کرتی سخت آواز سے اسے مزید کچھ کہنے کا یارا نہ رہا تھا۔ وہ گاڑی کا دروازہ بند کرتا باہر نکلا تھا۔ شجاع فرید نے خود کو کڑے ضبط سے باہر نکلنے سے روکے رکھا تھا۔ جیکسن ترحم سے اس کی طرف دیکھتا گاڑی سے اترا اور لوگن کی رسی تھامی تھی۔ وہ آبادی سے دور ویرانے میں برسوں سے بند پڑا مکان تھا۔ جس کی تعمیر ادھوری ہی چھوڑ دی گئی تھی۔