دوربین آنکھوں سے لگائے زمان کریم اس علاقے کی واحد سڑک پہ نظر رکھے چوکس بیٹھا تھا۔ دور سے آتی سیاہ رینج روور سڑک پر دھول اڑاتی نمودار ہوئی تھی۔ ”گاڑی آ گئی ہے سر!“ اس نے زمان کریم کو مطلع کیا جو سٹینڈ پر پستول سیٹ کیے اس سٹینڈ کی دوربین میں اسی کھنڈر مکان کو نشانہ بنائے ہوئے تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں وہ گاڑی عین اس کی پستول کے نشانے پر آن رکی تھی۔”کیا ہم جو کر رہے ہیں؟ وہ ٹھیک ہے؟“ زمان دوربین رکھ کر اس کے پاس آیا تھا۔”ہم جو کر رہے ہیں بالکل ٹھیک کر رہے ہیں البتہ میں نے جو کیا، وہ ٹھیک نہیں تھا۔“ وہ پستول سے سر ہٹا کر اس کی طرف گھوما اور بولا تھا۔ اس کا اشارہ تابعہ کی طرف تھا۔”آپ اس لڑکی کو ایسے ہی چھوڑ دیں گے؟“ اسے یہ بات ابھی بھی ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ ضربان کرمانی اس لڑکی کو بے ہوشی کی حالت میں اسی کھنڈر مکان کے اندر ایک لکڑی کے تختے پر چھوڑ آیا تھا اور بالفرض اگر لہیم جاہ اس کارڈ کے ذریعے ان کی لوکیشن معلوم نہ کروا لیتا تو اس ویرانے میں اس لڑکی پہ کیا گزرتی؟ یہ سوچ کر ہی اسے جھرجھری آ گئی تھی۔”میں نے اس لڑکی کو اٹھا کر بہت بڑی غلطی کی ہے زمان! اب اسے چھوڑ کر میں کوئی غلطی نہیں کر رہا۔“ وہ گھوم کر دوبارہ پستول کے سٹینڈ کی دوربین میں دیکھنے لگا تھا۔”میں نے اس لڑکی کو ذہنی طور پر اتنی اذیت دی ہے نا زمان کہ ایک مدت تک وہ اس صدمے سے ابھر نہیں سکے گی۔“ وہ پستول کو ہدف پہ سیٹ کرنے لگا تھا۔ زمان کریم نے لہیم جاہ کو ٹوٹی دیوار سے اندر جاتے دیکھا تھا۔ اس کے جانے کے بعد شجاع فرید گاڑی سے اتر آیا تھا۔ اب پستول کے نشانے پہ شجاع فرید اور عبدالمعید دونوں ہی تھے۔”یہ آپ کیا کرنا چاہ رہے ہیں سر؟“ وہ اب جا کر ضربان کرمانی کے ذہن تک کچھ رسائی پانے میں کامیاب ہوا تھا۔”اپنے پیاروں کی موت، پہاڑ جیسے انسان کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے اور اپنوں کا غم اسے خس و خاشاک کی مانند بہا لے جاتا ہے۔“ اس نے پستول کے سٹینڈ کی دوربین میں دیکھا تھا۔ ابھی بھی فیصلہ کرنے میں متامل تھا کہ گولی ان دونوں میں سے کس پر چلائے؟”لہیم جاہ! تم جب جب اس لڑکی کو دیکھو گے تم ان جلتے ہوئے پتوں کی طرح ہر لمحہ جلو گے اسے تکلیف میں دیکھ کر تم گیلی لکڑی کی طرح سلگتے رہو گے لیکن کچھ کر نہیں پاؤ گے۔“ دوربین سے اس نے عبدالمعید کو شجاع کی طرف منھ کیے کھڑے دیکھا تھا۔ ایک آنکھ بند کرتے، اس نے ٹریگر پر انگلی رکھی تھی۔”اور اپنے عزیز ترین شخص کی موت، تمھیں کسی پل سکون نہیں دے گی۔ تم کرب و بلا کے اس سمندر میں غوطہ زن رہو گے جس میں، میں اتنے سالوں سے مسلسل ڈوب رہا ہوں۔“ فیصلہ ہو گیا تھا۔ اس نے ٹریگر دبایا تھا۔ سائلنسر لگی پستول سے نکلی گولی تیزی سے اپنے ہدف کی طرف بڑھی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭