میزاب بالکنی میں کھڑی سڑک پر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہی تھی جب اسے دور سے نعمان کی کرولا آتی ہوئی دکھائی دی۔
وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ آنکھوں کو چندھیا کر غور سے دیکھنے لگی تو اس نے دیکھا کہ ڈرائیونگ سیٹ پر دُراب ہے اور اس کے ساتھ مہرین بیٹھی ہوئی ہے۔اس کا دل عجیب ہی لے پر دھڑکنے لگا تھا۔
سیاہ چمکتی ہوئی کرولا ان کے دروازے پر آ کر رک گئی تھی۔
وہ سر پر دوپٹہ درست کرکے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔
اتنے میں صدر دروازے پر گھنٹی بجنے لگی تھی۔
اس کے قدم اور بھی تیز چلنے لگے تھے۔
دوبارہ بیل بجی تو وہ دروازے پر پہنچ گئی تھی۔
“کون؟”اس نے انجان بن کر آواز لگائی۔
“میں ہوں مہرو، دروازہ کھولو!”مہرین نے جواب دیا تو اس نے جھٹ سے دروازہ کھولا تھا۔
مہرین اندر چلی آئی تو اس کی نظریں لاشعوری طور پر باہر گاڑی میں بیٹھے دُراب پر پڑی تھیں جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
وہ اس کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے دروازے سے ہٹ گئی اور مہرین کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
“میں تمہیں لینے آئی ہوں۔”مہرین نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر کہا تو وہ رُک گئی۔
“کیوں!”اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورا۔
“میری مرضی!”
“یہ کیا بات ہوئی؟ تم کوئی . . . . “اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات پوری کرتی زرینہ بیگم چلی آئیں۔
“آنٹی میں اسے اپنے ساتھ لے جانے آئی ہوں۔بھائی نے آج مونال ڈنر پر لے کے جانا ہے۔”وہ زرینہ بیگم کے آتے ہی بول پڑی۔”اور ہاں واپسی دیر سے ہوگی اس لیے یہاں آنا مشکل ہوگا۔ابی میرے ساتھ رات بھی گزار لیں گی۔”
“وہ سب تو ٹھیک ہے بیٹا مگر اس کے بابا ابھی آجائیں تو ان سے پوچھ کر . . . . “وہ ابھی کچھ اور بھی کہنے والی تھیں جب مہرین بول پڑی۔
“ان کی فکر نہ کریں آپ۔میں نے انہیں کال کرکے اجازت لے لی ہے۔”وہ آنکھیں پٹپٹا کر بولی۔
“انہوں نے اجازت دے دی ہے تو پھر میری کیا مجال جو اسے روکوں؟”زرینہ شفقت بھرے لہجے میں بولیں۔”جاؤ ابی تیار ہوجاؤ۔”اب کے انہوں نے میزاب کو دیکھ کر کہا تو وہ سر ہلا کر چپ چاپ اندر چلی گئی تھی۔
مہرین زرینہ سے باتیں کرنے لگی۔ تقریباً دس منٹ بعد میزاب تیار ہو کر نکل آئی تھی۔
“چلیں!”
“یس شیور!”مہرین پلنگ سے پرس اور موبائل اٹھا کر خود بھی اٹھ گئی تھی۔
وہ دونوں باہر آئیں تو دُراب گاڑی میں بیٹھا دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس کی نظریں میزاب پر پڑیں تو پلٹنا بھول گئیں۔