اس نے جامنی رنگ جوڑے پر پیچ کلر کا دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔دائیں ہاتھ میں جامنی اور پیچ کلر کی دو اسٹیل کی چوڑیاں اور بائیں ہاتھ میں سفید موتیوں والا بریسلٹ پہنا ہوا تھا۔وہ مہرین کے ساتھ گاڑی تک آئی تو مہرین اس کے لیے پچھلا دروازہ کھول کر خود آگے بیٹھ گئی تھی۔
“دُر بھائی تو پھر سیدھا مونال چلتے ہیں۔”اس نے بیٹھتے ہی کہا تو ڈرائیونگ سیٹ پر دُراب کو دیکھ کر میزاب دنگ رہ گئی۔
“اوکے جناب!”اس کے چہرے پر عجیب سی خوشی تھی۔
“مہرو نومی بھائی؟”میزاب نے مہرین کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے مڑ کر اسے دیکھا تھا۔
“ارے ان کا یہاں کیا کام؟ یہ تو ہمیں دُر بھائی لے کے جا رہے ہیں۔”وہ بڑے مزے سے بولی مگر میزاب کو لگا تھا جیسے اسے جلتی ہوئیں انگاروں پر بٹھا دیا گیا ہو۔
“تم نے امّاں سے جھوٹ بولا؟”وہ رونے والی تھی۔
“چِل یار! اتنا تو چلتا ہے اور ویسے بھی دُر بھائی کل گاؤں جا رہے ہیں۔”وہ آرام سے بولی تو میزاب کو غصّہ آیا تھا۔
“میں چاہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔”میزاب نے اس کی بات کاٹی تھی۔
“مہرو یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔مجھے ابھی گھر جانا ہے۔”وہ ناراضی سے بولی تو دُراب نے گاڑی موڑ لی تھی۔
“کیا ہوا دُر بھائی؟”مہرین حیران ہوتی ہوئی مستفسّر ہوئی۔
“جب انہیں اچھا ہی نہیں لگا تو جانے کا فائدہ؟”اس نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دی۔”اور ویسے بھی انہیں اعتبار ہی نہیں ہے مجھ پر ورنہ تمہاری موجودگی میں میرے ساتھ جانے پر ناراض نہ ہوتی۔”وہ سنجیده لہجے میں کہتے ہوئے گاڑی کی اسپیڈ کو مزید بڑھا گیا تھا۔