Uncategorized

The last night by Zainab nasar khan Episode 5

___________

“تو پھر کب آرہا ہے ؟” وہ دونوں ناشتہ کررہی تھیں جب راحیلہ بیگم ایک دم بولیں۔ کمالہ نے حیرت سے ابرو اچکاۓ۔”کون؟””تمہارا ہیرو””میرا ہیرو؟ ” کمالہ نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔”رات کو کہہ رہی تھی نا آنے والا ہے تو کب آرہا ہے یہ پوچھ رہی ہوں۔ بتاؤ پھر کب آۓ گا؟” پھلکے کا نوالہ توڑتی ہوئی وہ بہت گہری چوٹ کررہی تھیں۔ کمالہ کا دل بھر آیا۔ کیسی ماں تھیں اس کی۔”میں نے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ جب آنا ہوا تو آجاۓ گا۔ آپ کیوں ہر بات کے پیچھے پڑ جاتی ہیں اماں؟” روٹی سے ہاتھ کھینچتے اب وہ لڑائی پر توجہ دینے والی تھی کہ راحیلہ بیگم کی اگلی بات پر چونک گئی۔”چار بچوں کے باپ کو اپنا داماد بنانے میں مجھے کوئی حرج نہیں۔”مطلب؟۔”ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔”میں نے رات کو دیکھا تھا۔ تم شہریار سے بات کررہی تھی۔ وہ تم سے ملنا چاہتا ہے؟۔” وہ ایک دم ٹھنڈی پڑی۔ کندھے ڈھیلے چھوڑ دئیے۔”تو آپ سن چکی ہیں؟” اسنے ہلکا سا گھورا۔”ہاں!” راحیلہ بیگم ڈھٹائی بولیں ، کمالہ تھکی سی مسکرادی۔ انہیں ایک دم جیسے ڈھارس سی ملی۔”دیکھو کمالہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور کہیں نا کہیں مجھے لگتا ہے اس کی وجہ تم ہو۔ بیٹا اگر وہ تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہے تو مجھے قطعی طور پر کوئی اعتراض نہیں۔ میں نے آج تک تم پر کسی بھی فیصلے میں آکر زور زبردستی نہیں کی۔” وہ دونوں کھانے سے ہاتھ کھینچ چکی تھیں۔ اور ایک نیا موضوع کھولے بیٹھ چکی تھیں۔”آپ کو لگتا ہے میں ایسا چاہتی ہوں؟””ہو بھی سکتا ہے۔””کیا آپ مجھے جانتی نہیں اماں؟ یہ بچکانہ سوال آپ کے ذہن میں آیا بھی کیسے۔ “”دیکھو کمالہ زندگی میں ہمیں ایک محافظ کے طور پر مرد کی ضرورت پڑتی ہے۔ تم جتنی مرضی بہادر بن جاؤ لیکن مستقبل میں تمہیں کسی مرد کی ضرورت ضرور پڑے گی۔”راحیلہ کی بات پر ایک زخمی مسکراہٹ اسکے چہرے پر پھیل گئی۔”لیکن وہ مردِ محافظ شہریار ہرگز نہیں ہوگا اماں!” اس نے دو ٹوک بات کی۔ راحیلہ بیگم چند ثانیے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔”تو پھر رات کے اس پہر اسکا فون سننا مناسب تھا؟” ان کے طنز پر کمالہ نے گہری سانس بھری۔”وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔” اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر نہیں تھا کہ راحیلہ بیگم اسے پکڑ پاتیں۔”کیوں؟””میں نہیں جانتی۔ لیکن مجھے یقین ہے وہ دوبارہ بھی وہی سب کرنا چاہتا ہے جو پہلے کرچکا ہے۔”تم کیا چاہتی ہو؟ جاؤگی اس سے ملنے؟۔””جانا تو پڑے گا۔ کچھ رشتوں کو منہ توڑ جواب دینے کا سنہرا موقع کبھی بھی ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہیے۔” وہ مسکرا رہی تھی اور اس کی مسکراہٹ میں ایسا کچھ تو ضرور تھا کہ راحیلہ بیگم ٹھٹھک گئیں۔ لیکن مزید کریدنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ ایک ایسا موضوع تھا جو آٹھ سال گزرجانے کے بعد بھی انکی بیٹی کے چہرے پر ایسے تکلیف دہ تاثرات لے آتا کہ وہ حتی المقدور کوشش کرتیں کہ اس بابت گہرائی میں جاکر بات ہی نہ کی جاۓ۔ انہیں اپنی بیٹی کا وہ آبلہ پائی کا سفر ابھی تک ازبر تھا، جو اٹھارہ انیس سالہ کمالہ سے شروع ہوکر چھبیس سالہ کمالہ ہاشم پر آکر رکا تھا۔ اسے وقت کی بھٹی میں جھلستا دیکھنے والی وہ واحد گواہ تھیں۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ہونی والی زیادتیوں کو کبھی بھولنے والی عورت نہ تھیں۔ گو کہ انکا رویہ آج بھی ان لوگوں کیلیے ویسا ہی تھا جیسا آج سے آٹھ سال پہلے تھا۔۔۔۔۔۔نرم، شائستہ! “آج کیشور آۓ گی کہ نہیں؟” انہوں نے بات ہی پلٹ دی۔ کمالہ اب توجہ سے کھانا کھا رہی تھی۔”ہممم۔ فون تو کیا تھا بلکہ۔۔۔۔ وہ دیکھیں آگئی۔” اس نے کچن کی جانب آتی عورت کی طرف اشارہ کیا۔ راحیلہ بیگم ہلکہ سا مڑیں۔”آگئی تم؟””سلاما علیکم جی!” سفید بنارسی ساڑھی پہنے، مذہب کی ہندو عورت جب ان کے قریب آئی تو فوراً سلام کیا۔ کمالہ اور راحیلہ بیگم دونوں نے جواباً اس پر سلامتی بھیجی۔”وعلیکم السلام! یہ چُنے مُنے کو بھی ساتھ لے آئی آج۔ سکول نہیں جاۓ گا کیا؟۔” راحیلہ بیگم خاموش رہی جبکہ کمالہ اسکے پیچھے آتے گیارہ سالہ سورج کو دیکھ کر بولی۔ وہ بہت پیارا بچہ تھا۔ موٹے موٹے سفید دھودیا گال، سبز آنکھیں، بھورے بال۔ کمالہ کو بہت پسند تھا وہ۔ اسے بچے زیادہ پسند نہ تھے مگر سورج سب سے الگ تھا جب بھی آتا کمالہ اس کے لیے کچھ نا کچھ سپیشل بناتی ۔”ارے باجی اس کا تو پوچھیں ہی مت! میری ناک میں دم کرکے رکھا ہوا ہے اس نے۔” وہ آتے ساتھ ہی ڈائننگ سے برتن اٹھانے لگی، ساتھ کمالہ کی باتوں کے جواب بھی دے رہی تھی۔”کیوں؟ اتنا پیارا بیٹا ہے تمہارا۔ بھلا یہ کیوں تنگ کرے گا۔ کیوں گولو مولو؟” وہ ناشتے سے فارغ ہوچکی تھی۔ اس کے قریب آکر دونوں گالوں پر پیار کیا۔”یہ تو بیمار ہے اس لیے نہیں جانے دیا آج سکول ۔ اس کی استانی بھی اس کی شکایتیں لگاتی ہے اب۔” سالن کا ڈونگا اٹھا کر اوپن کچن کی سلیب پر رکھتے ہوۓ وہ بولی۔ جبکہ کمالہ خاموشی سے سورج کے ساتھ لاڈ کرنے میں مصروف تھی۔”ایسے ہی بدنام کیا ہوا ہے تم نے اور اس کی طبعیت کو کیا ہوا ہے؟ اتنا مرجھایا مرجھایا کیوں ہے یہ؟” پہلی دفعہ اسے احساس ہوا کہ سورج کی آنکھیں سرخ اور ہونٹ نیلے پڑ رہے تھے۔ آنکھوں کے نیچے بھی جیسے جامنی رنگ کی ہلکی ہلکی لکیریں ابھر رہی تھیں۔”پتا نہیں باجی! پرسوں ضد کرکے سعد اسے باہر اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ باجی شگفتہ کا بیٹا ہے نا (کمالہ نہ سعد کو جانتی تھی نہ باجی شگفتہ کو۔ مگر پھر بھی ایسے گردن ہلائی جیسے جانتی ہو۔) وہ لے گیا تھا۔ میں نے منع بھی کیا لیکن اس کے باپ نے زبردستی بھیج دیا۔ جب سے واپس آیا ہے ایسے ہی منہ لٹکاۓ ہوۓ نشئیوں کی طرح پڑا ہے۔ ڈاکٹر سے دوائی بھی لی لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔” کیشور کی باتوں پر ٹھٹھک کر اس نے دوبارہ سورج کو دیکھا۔ وہ واقعی ایسی حالت میں تھا ۔ آگے بڑھ کر اس نے اس کی آنکھوں کو تھوڑا نیچے کرکے دیکھا، نبض دیکھی، منہ کھلوا کر دیکھا تو احساس ہوا کہ وہ واقعی نشے میں تھا۔ سورج اس کے انگوٹھے کے زخم کو گھورے گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔ کمالہ اس کی حرکت پر مسکرادی۔”آپی یہ زخم کیوں ہوا ہے آپ کو؟” بظاہر سادہ انداز میں اس نے پوچھا۔ مگر اندر کہیں دور اسکے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ فوراً سے بیشتر وہ اس زخم کو کھرچتا۔ “یہ۔۔۔ یہ کل دیوار پر تصویر ٹانکتے ہتھوڑا لگ گیا۔ زیادہ گہرا نہیں اس لیے کریم لگادی ہے۔” اپنے زخم کو دیکھتی وہ بولی۔ جبکہ سورج زبان ہونٹوں پر پھیرتے ہوۓ آگے بڑھا۔”ہاں ہاں اس کو دکھاؤ زخم۔ یہ ڈاکٹر بن گیا ہے نا! جیسا باپ ویسا بیٹا۔ اس سے زخم چھپا لو باجی، کل رات باپ کی انگلی پر زخم تھا۔ اس نے ناخنوں سے کھرچ دیا اسے اور جب اس سے دل نہ بھرا تو دانت گھسا دئیے۔ نشئی کہیں کا!” کیشور کی ہانک پر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ الجھن سے سورج کو دیکھا۔ جس کی نظر بدستور اس کے زخم پر تھی۔ بے اختیار ہاتھ پیچھے کیا پھر سر جھٹک کر واپس کیشور کی طرف آئی۔”یہاں قریب ہی ایک ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار! ان کے پاس لے جانا اسے۔ وہ ٹھیک کرلیں گے سب اور پریشان نہیں ہو۔ بس احتیاط کیا کرو۔ آج کل کی دوستی، پیسے دولت پر ہوتی ہے۔ بلاوجہ اسے باہر مت نکالا کرو۔” وہ ایسے ہزار کیس دیکھ چکی تھی۔ ابھی تو شکر تھا کہ سورج کو جسمانی اذیت دینے کی کوشش نہ کی گئی تھی۔ وگرنہ تو ایسے کیسز میں بڑے ہولناک قسم کے انکشافات ہوتے ہیں۔ اس کی بات پر مارے بندھے کیشور نے سرہلادیا۔ لیکن یہ وہی جانتی تھی کہ دلدل میں پھنسے ہوۓ کچھ بھی کرلیں، دم گھٹ کر مرجانا ان کی قسمت میں ہوتا ہے۔

__________

Nims

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,