آج اتوار کا دن تھا۔ پورا گھر سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ دن کے بارہ بج رہے تھے اور گھر کے مکین ابھی تک محو استراحت تھے۔ ان سب میں ایک وجود ٹی وی لاؤنج میں اخبار پکڑے شہہ سرخیوں پر نظریں دوڑارہا تھا۔ غالباً ناشتہ وہ کرچکا تھا۔ جبھی چائے کا خالی مگ اس کے پاس پڑا تھا۔ اسی اثناء میں ایک اور فرد کا اضافہ ہوگیا۔ جو لمبی جمائی لیتے ہوئے سیدھا یہاں آگیا تھا۔
“صبح بخیر ۔ کیسے ہو ابراہیم؟ اتنی صبح صبح اٹھ گئے۔ اتوار کو تو آرام کرلیا کرو۔” مقابل نے ہلکے پھلکے انداز ميں اسے مخاطب کیا۔
“صبح بخیر کی بجائے دوپہر بخیر کہیں تو زیادہ بہتر ہے۔ خیر آپ بتائیں۔ اس بار کافی عرصے بعد اتنی چھٹیاں لے کر آئے ہیں اور مجھے بھی اتنی ایمرجنسی میں بلوایا ہے۔ لگتا ہے کوئی خاص بات ہے کیا؟” ابراہیم نے لطیف سا طنز کرنے کے بعد عظیم (بڑے بھائی)سے استفسار کیا۔
“ہاں بھئی۔ سمجھو کہ خاص بات ہی ہے۔ فہیم (منجھلے بھائی) سے بات کرنے کے بعد ہم نے سوچا ہے کہ اس بار تمہیں شادی کے بندھن میں باندھ کر اس فرض سے سبکدوش ہوا جائے۔ خیر سے چونتیس برس کے ہورہے ہو۔” ان کے تفصیلی جواب پر ابراہیم نے پہلو بدلا۔
“میں فی الحال شادی نہیں کرنا چاہتا بھائی۔” ابراہیم نے صاف انکار کیا۔
“ ارے ایسے کیسے نہیں کرنی شادی۔ تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے کوئی حسینہ تمہیں ماہی سے ماموں بناکر چھوڑ کر چلی گئی ہو اور تم اس کا غم اب تک سینے سے لگائے جوگ کاٹ رہے ہو۔” عظیم نے اسے شریر نگاہوں سے دیکھا۔
“ایسا کچھ نہیں ہے بھائی۔ میرا دل نہیں مانتا۔ یہ ایک ذمہ داری ہوتی ہے جس کو نبھانا بہت مشکل ہے۔” ابراہیم نے اک گہری سانس خارج کی۔
“ارے میں تمہاری عمر میں تین بچوں کا باپ بھی بن چکا تھا۔ اور تم کہہ رہے کہ ابھی دل نہیں۔ دیکھو اگر کوئی پسند ہے تو ہے بتادو۔ ورنہ پھر ذہنی طور پر تیار ہوجاؤ۔ اس بار ہمارا فیصلہ اٹل ہے۔” عظیم کا چہرہ ان کے عزائم کے پختہ ہونے کا پتا دے رہا تھا۔ جس پر ابراہیم کو مانتے ہی بنی۔
Ye Zindagi Nahin Koi Fasana by Sumbul Tauseef Episode 3
