“ٹھیک ہے جیسے آپ چاہیں۔ لڑکی بھلے خوبصورت نہ ہو، مگر سمجھ دار، سیلقہ مند ہونے کے ساتھ وہ خالص گھریلو بھی ہونی چاہئے۔” اس نے انہیں لڑکی کے متعلق اپنی پسند سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔
“اچھا اچھا۔ تو یوں کہو نا کہ تمہیں پوری کی پوری دادی اماں چاہئے ۔” عظیم کے چھیڑنے پر اس کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑا۔ جس کے نتیجے میں اس نے اخبار کو میز پر پٹخا۔
“اوہو۔ تم تو ناراض ہی ہوگئے۔ میں تو مذاق کررہا تھا۔ تم جیسا چاہو گے وہی ہوگا۔” اس کے ردعمل پر عظیم بوکھلاگئے۔ چند پل وہ انہیں ناراض نظروں سے دیکھتے رہنے کے بعد خاموشی سے باہر چلاگیا۔ جس پر عظیم نے گہری سانس بھری۔ شکر ہے وہ مانا تو سہی۔ اب وہ منجھلے بھائی کو اس کی رضامندی کی بابت مطلع کررہے تھے تاکہ جلد از جلد یہ معاملہ نپٹاسکیں۔
اتنی دیر میں ان کی بیگم ماریہ بھی تشریف لے آئیں۔ اور ابراہیم کے شادی کیلئے مان جانے پر خوشی سے پھولے نہ سمائیں۔ مگر اس کی لڑکی کے حوالے سے شرائط سن کر منہ ہی بنا کر رہ گئیں۔
“لو جناب۔ ان صاحب کے بھی الگ ہی نخرے ہیں۔ اب بھلاں ایسی لڑکی کہاں سے لاکر دیں۔ اچھا خاصا مسز ملک کی بھتیجی کا رشتہ آیا تھا۔ مگر یہ موصوف پتا نہیں کون سی حورپری کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ ” انہوں نے نخوت سے سر جھٹکا۔ خیر اب جب ذمہ اٹھالیا ہی تھا تو اسے پار بھی انہوں نے لگانا تھا۔
“تم فکر مت کرو۔ اس بار اس کی شادی کرواکر ہی چھوڑیں گے۔ تم جاکر تیار ہوجاؤ۔ شام میں شادی پر بھی جانا ہے۔” عظیم نے ان کی توجہ دوسری جانب لگائی۔
ناک منہ چڑھاتیں وہ تقریب کیلئے تیار ہونے چل دیں۔ کیونکہ عظیم کے کاروباری حلقہ احباب میں کسی کی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ سو جانا لازمی تھا۔ کیا پتا وہیں پر کوئی لڑکی پسند آجائے تو کتنی آسانی ہوجائے گی۔ اور وہ اس فکر سے آزاد ہوجائیں گی جو دن رات ان کے شوہر نامدار کو ہلکان رکھتی تھی۔
________________
جاری ہے۔
Ye Zindagi Nahin Koi Fasana by Sumbul Tauseef Episode 3
