Web Special Novels

Dil O Janam Fida e Tu By Aniqa Ana Episode 66

ضربان کرمانی جب سے ان سے مل کر گیا تھا وہ تب سے جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں ٹہل رہی تھیں۔ ہاتھ میں دبی سگریٹ ایک کے بعد ایک سلگتی چلی جا رہی تھی اور سگریٹ کے ساتھ وہ خود بھی سلگ رہی تھیں۔ انھیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ اچانک ان کے خلاف کیسے اٹھ کھڑا ہو سکتا تھا؟ انھیں یہ خیال کیوں نہیں آیا تھا کہ کل تک جو اس بازی میں ان کے ساتھ تھا وہ آج ان کے خلاف ہو جائے گا۔ کچھ ایک سال پہلے وہ اچانک ہی ایک پارٹی میں ان سے ملا تھا۔ انھیں اس سے ملانے والا اور کوئی نہیں لہیم جاہ کا سب سے بڑا کاروباری حریف تھا۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ جب بھیڑیا اکیلا ایک شیر کو ہرا نہیں سکتا تو وہ گروہ بندی کر کے اس شیر کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔”میں تمھیں لہیم کے پل پل کی خبر دینے کو تیار ہوں۔ بدلے میں تم مجھے کیا دو گے؟“ آفاق ملک کے فارم ہاؤس پر رات گئے منعقدہ اس پارٹی میں سب سے الگ تھلگ میز پر وہ دونوں ہی موجود تھے۔ اعلیٰ معیار کے ”مشروبات“ دیدہ زیب بلوریں جام میں میز کی زینت تھے۔ باوردی بیرے ٹرے میں مختلف جام سجائے محفل میں سرگرداں تھے۔ ایک گائیکہ کچھ سازندوں کے ساتھ دھیمے سروں میں کوئی غزل گاتی محفل کے رنگ نکھار رہی تھی۔ کچھ سن کر تو کچھ صرف ”پی“ کر بہک رہے تھے۔ اگرچہ رات کے اس پہر میں غزل کے اشعار یا گائیکہ کے آواز کے زیر و بم کی طرف کسی کی توجہ کم ہی تھی مگر محفل کو رنگ دینے کے لیے یہ بھی ضروری خیال کیا گیا تھا۔سیاہ جھلملاتی آدھے اور بنا آستین کا بلاؤز پہنے، جس کا گہرا اور وی کٹ گلا کئی ان دیکھے راز عیاں کر رہا تھا۔ گردن میں پہنا سفید ہیروں کا سیٹ ان کے حسن کو مزید اجال رہا تھا۔”جو آپ ابھی چاہتی ہیں وہ دینا میرے بس میں نہیں ہے۔“ پاس گزرتے بیرے کی ٹرے سے سوفٹ ڈرنک کا گلاس اٹھا کر، اس کا ایک گھونٹ بھرتے، ان کے دعوت دیتے، آتش فشاں بنے حسن پر ایک نگاہ ڈال کر آنکھ مارتے ہوئے ان سے کہا تو وہ جو قدرے جھک کر اس کی طرف متوجہ تھیں، تلملا کر پیچھے کو ہوئی تھیں۔”اس کے لیے آپ محفل میں موجود کسی بھی پروانے کی طرف اشارہ کر کے دیکھیں، وہ بے سوچے سمجھے آپ کے حسن کی شمع پہ جل کر راکھ ہو جائے گا۔ ہاں مگر میں اس مزاج کا بندہ نہیں ہوں۔ میں پروانہ نہیں جو شمع پر جل مرے، میں تو خود شمع کو جلا کر خاک کرنے والی چنگاری ہوں۔“ بالوں میں ہاتھ پھیر کر انھیں انگلیوں سے ماتھے پہ لا کر پھر پیچھے کی طرف سیٹ کرتے ہوئے وہ بغور ان کے چہرے پر پھیلے ناگواری کے تاثرات دیکھ کر دل ہی دل میں محفوظ ہوتا رہا تھا۔”آپ لہیم جاہ کی تباہی چاہتی ہیں تو میں بھی وہی چاہتا ہوں۔ آپ مجھے لہیم جاہ کی کم زوری بتائیے بدلے میں، مَیں آپ کو ٹوٹا بکھرا لہیم جاہ دوں گا“ گلاس ہاتھ میں تھامے وہ اسے کڑی نظروں کے حصار میں لیے رہیں۔ یہاں تک کہ اسے خود اس خاموشی کو توڑنا پڑا تھا۔”کیا سوچ رہی ہیں مسز ایلسی جاہ؟“ انھوں نے نظروں کا زاویہ بدلا۔ سر جھٹک کر گلاس میں موجود مشروب کا آخری گھونٹ بھرا اور چند قدم پر کھڑے ویٹر کو ہاتھ کے اشارے سے بلایا تھا۔”جب آپ خود نشے کی منھ بند بوتل جیسی ہیں تو اس خماری کو مزید ہوا کیوں دے رہی ہیں۔“ انھیں نیا گلاس اٹھاتے دیکھ کر وہ کہے بنا رہ نہ سکا تھا۔”جب تک کہ اس نشے کا جادو تم پر نہ چل جائے۔“ وہ خمار آلود لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔ اس کا جان دار قہقہہ پوری فضا میں سر بکھیر گیا تھا۔”آپ حسن کے یہ تیر غلط شخص پر آزما رہی ہیں۔ بحث مت کیجیے ہار جائیں گی۔ میری پیش کش پر نظر کیجیے، فائدے میں رہیں گی۔“ اب وہ بہت سنجیدگی سے بولا تھا۔”ابھی آپ سوچنے سمجھنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ آپ کا نمبر ہے میرے پاس، خوب سوچ سمجھ لیں میں کل صبح گیارہ بجے فون کروں گا۔“ وہ انھیں سوچ میں گم چھوڑ کر میز سے اٹھ گیا تھا۔ اگلی صبح انھوں نے اس کی پیش کش قبول کر لی تھی۔”کیا وہ آپ کا اپنا ہی بیٹا ہے؟“ اس نے سوال کیا تھا۔”کیوں؟ تمھیں کوئی شک ہے؟“ انھوں نے تیکھے لہجے میں دریافت کیا تھا۔”اب نہیں رہا۔“ وہ معنی خیزی سے کہتا مسکرایا تھا۔”مجھے لہیم جاہ کے پل پل کی خبر نہیں اس کی کم زوری چاہیے۔“ اس نے کہا تو ایلسی جاہ پل بھر کو چپ ہوئی تھیں ان کے چہرے پر پھیلے تاثرات اسے باور کرانے کے لیے کافی تھے کہ وہ لہیم جاہ کے معمولات سے ہی کم واقف تھیں اس کی کم زوری کیسے جان پاتیں؟”آپ کی خاموشی بتا رہی ہے کہ آپ اس سلسلے میں میری کوئی مدد نہیں کر سکتیں تو پھر میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ معاہدہ ختم کر دینا چاہیے۔“ وہ کَہ کر ان کے ردعمل کا انتظار کرنے لگا تھا۔”نہیں!“ جواب اس کے حسبِ منشا ہی آیا تھا۔ بڑی دل جلانے والی مسکراہٹ اس کے چہرے پر رقص کرنے لگی تھی۔ کچھ کہے بغیر وہ گہری نظر سے انھیں دیکھے گیا تھا۔”ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟“ وہ اس کی گہری نظروں سے خائف ہوتے ہوئے بولی تھیں۔”آپ کے اس حسین چہرے پر مامتا کا وہ نور تلاش کر رہا ہوں جو ماؤں کا خاصہ ہوتا ہے۔“ طنز سے بھرپور لہجہ، اپنے لفظوں میں بھی گہری کاٹ لیے ہوئے تھا۔”میں ان عام روایتی عورتوں جیسی نہیں ہوں۔ جو اپنی اولاد کے لیے خود کو فراموش کر دیتی ہیں۔“ انھوں نے نخوت سے سر جھٹک کر کہا تھا۔”میں جانتا ہوں کہ آپ ان خاص اور گنی چنی خواتین میں سے ہیں جو اپنی خوشی اور غرض کی خاطر کسی کو بھی راستے سے ہٹا سکتی ہیں۔“ اس کے بولنے میں، اس کے لفظوں میں ایسی سرد مہری تھی کہ ایلسی جاہ کو وہ سرد مہری اپنی ریڑھ کی ہڈی میں اترتی محسوس ہوئی تھی۔”تمھیں لہیم جاہ کی بربادی میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟“ اس کی بات کا اثر زائل کرنے کے لیے انھوں نے بات کا رخ بدلا تھا۔”وہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا۔“ وہ جو آگے کو جھک کر بیٹھا ہوا تھا اب دونوں بازو سینے پر باندھتا، پیچھے کو ہوتا، سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔”جیسے تمھاری مرضی!“ وہ شانے اچکا کر بولی تھیں۔ پھر وہ جو جو ان سے پوچھتا تھا وہ بتاتی رہتی تھیں اور آج؛ آج ایک پل میں کایا ہی پلٹ گئی تھی۔ وہ نہ صرف ان کے خلاف ہوا تھا بلکہ جمال کرمانی کا بیٹا بھی تھا یہ سب انھیں پہلے کیوں نہیں پتا چلا تھا؟ وہ اب اسی سوچ میں ہلکان ہو رہی تھیں کہ ضربان کرمانی اپنے باپ کی موت کے بارے میں کیا کچھ جانتا تھا؟ وہی جمال کرمانی جسے کئی سال پہلے انھوں نے خود اپنے پرانے واقف کار کی مدد سے کار حادثے میں مروا دیا تھا اور پولیس نے جلدی ہی ہٹ اینڈ رن کا کیس بنا کر معاملہ ختم کر دیا تھا۔ جس ماضی کو فراموش کیے وہ سکون سے اپنی زندگی گزار رہی تھیں آج ان کا وہی ماضی مجسم روپ دھارے ان کے سامنے کھڑا ان کے سکون کو تہ و بالا کرنے کو تھا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Khan Mahnam

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *