Classic Web specials All Episodes

Dil o Janam Fida E Tu By Aniqa Ana Episode 67

بختاور کمرے کی کھڑکی کھولے سیاہ سیاہ آسمان پر چمکتے ستاروں میں نہ جانے کیا تلاش کر رہی تھی۔ دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ وہ اپنی سوچوں میں اتنی مگن تھی کہ اسے دستک کا پتا ہی نہ چلا تھا۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد پھر ہلکی سی دستک دے کر اب کی بار جواب نہ ملنے پر شبیر حقانی نے اندر جھانکا اور اسے محویت سے آسمان کی طرف گم پا کر اندر قدم رکھے اور گلا کھنکھار کر اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔” ڈیڈی آپ! آپ کب آئے؟“ وہ چونکی اور انھیں دیکھ کر کھڑکی سے پیچھے ہٹی تھی۔” بس ابھی آیا ہوں۔ ایسا کیا دیکھ رہی تھی کہ میرے آنے بلکہ دی گئی دستک کا بھی پتا نہ چلا؟“ انھوں نے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استفسار کیا تھا۔” بس آسمان ہی دیکھ رہی تھی ڈیڈی! “ وہ کھڑکی کا پردہ برابر کرتے ہوئے بولی تھی۔” آسمان بہت خوب صورت ہے نا ڈیڈی؟ “اس نے پوچھا تھا۔” ہاں! بہت خوب صورت!“ انھوں نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا تھا۔” اتنا حسین کہ اس کی وسعتیں انسان کو ورطہ حیرت میں ڈالے رکھتی ہیں۔ نگاہ کہیں ایک پل کے لیے نہ اس کی خوب صورتی سے بھرتی ہے نہ اس کی وسعتوں سے اکتاتی ہی ہے۔“ وہ اس کے گرد اپنے بازو کا گھیرا بناتے ہوئے بول رہے تھے۔” اور اس آسمان سے بڑھ کر حسین ہے وہ انسان جس کے لیے پروردگار نے یہ زمین آسمان تخلیق کیے ہیں۔ “وہ ان کی بات سمجھ کر بھی نہ سمجھی تھی۔ ان کے ساتھ ہی ٹو سیٹر صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے بس یوں ہی پوچھا تھا۔” خوب صورتی کا معیار کیا ہے ڈیڈی؟ “” وہی جو ایک فرد کی اپنی نگاہ طے کرے۔ “” اور ایک فرد ہی کی نگاہ کسی کو خوب صورت تو کسی کو بد صورت بنا دیتی ہے۔ ایسا کیوں ہے ڈیڈی؟“ اس کا ذہن نجانے کن باتوں میں الجھا ہوا تھا۔” ایسا نہیں ہے بختاور! جس سے محبت ہوتی ہے وہ خوب صورت ہوتا ہے۔ محبت کا احساس انسان کو خوب صورت بناتا اور خوب صورتی کا معیار قائم کرتا ہے۔“ وہ اسے سمجھانے لگے۔ اس کے ذہن میں پروفیسر عباد بدر کا خیال آیا تھا اور وہیں ذہن کے ایک کونے میں کہیں قیام ہارون کی دھندلی سی شبیہ ابھری تھی۔ اس نے گھبرا کر فوراً سر جھٹکا تھا۔ ” کیا ہوا بختاور؟ “اس کی یہ حرکت ان سے پوشیدہ نہیں رہی تھی۔” محبت کا معیار کیا ہے ڈیڈی؟ “اس نے بے ساختہ پوچھا تھا۔” عزت، توجہ اور احساس “وہ سمجھ گئے کہ اس نے یہ سوال کیوں کیا تھا؟” محبت کے جتنے بھی درجے ہوں، عزت کا درجہ بلند ترین ہے بختاور! کوئی آپ کی عزت نہ کرے تو آپ کو اس محبت کو اپنی عزت پر قربان کر دینا چاہیے کہ عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔“ اس کی بات کا مقصد سمجھتے ہی انھوں نے بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی رائے ثاسے آگاہ کیا تھا۔” اپنی عزت نفس گنوا کر حاصل کی گئی محبت، محبت نہیں بھیک ہوتی ہے بختاور! اور تمھیں بھیک کی ضرورت کبھی نہیں رہی۔“ وہ دم بہ خود ان کی طرف دیکھے گئی تھی۔ نین کٹورے پانیوں سے لبریز ہوئے تھے۔ تاہم انھوں نے دل پر پتھر رکھے، اس کے آنسوؤں سے نظریں چراتے ہوئے کہا تھا۔” اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم جسے محبت سمجھ بیٹھتے ہیں وہ محض ایک وقتی کشش یا ہماری عمر کا وہ جذباتی سا دور ہوتا ہے جب ہمیں کسی کا ہنسنا بولنا تو کسی کا اٹھنا بیٹھنا بھی اچھا لگتا ہے۔ تمھارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔“ وہ اس سے اتنے بے تکلف بھی کبھی نہیں رہے تھے کہ ہر قسم کے موضوع پر بلا جھجک اس سے بات کر لیتے۔ ایسے موقعوں پر بیٹیوں کے لیے ماؤں کا ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے یہ احساس انھیں آج بری طرح ہوا تھا۔(تو پھر اماں جان کے ہوتے شہربانو کیوں بھٹک گئی تھی؟) شہربانو کا خیال اچانک ہی آیا تھا۔ اس کی خود نوشت پڑھنا شروع کرتے اور ہر بار رک جاتے تھے۔ کیا پتا حوصلہ نہیں رکھتے تھے یا جان بوجھ کر وقت نہ ہونے کا عذر تراشتے تھے۔ وہ ذہن سے ہر خیال جھٹک کر بختاور کی طرف متوجہ ہوئے جو سر جھکائے ہاتھوں کی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔” تین چار دن تک ہارون اور صاعقہ آ رہے ہیں۔ “” ڈیڈی۔۔! “ وہ کچھ کہنے کی خواہش کرتی پھر چپ ہوئی تھی۔” مجھے یقین ہے کہ قیام تمھیں خوش رکھے گا اور تم خوش رہو گی۔ “” اور اگر میں خوش نہ رہوں تو؟ “” تو میں تمھیں اتنا بے وقوف نہیں سمجھتا۔ “وہ نرمی سے بولے تھے۔ جانتے تھے کہ سختی سے کام سنورنے کے بجائے بگڑے گا۔” ہم لڑکیاں بے وقوف ہی ہوتی ہیں۔ چاہے چاند پر پہنچ جائیں۔“ وہ بڑںڑائی تھی۔ انھوں نے سن کر بھی ان سنی کر دیا تھا۔” تم میری بہت سمجھ دار بیٹی ہو۔ “وہ پھر اس کا سر تھپکتے ہوئے بولے تھے۔(ہم بیٹیوں کو بیٹی ہونے کی قیمت کیوں چکانی پڑتی ہے؟) اس نے صرف سوچا تھا۔” ڈیڈی! میں آپ کی بات مان لوں گی لیکن مجھے میری ڈگری تو مکمل کرنے دیں گے نا؟“ چند لمحوں کی گہری سوچ اور خاموشی کے بعد وہ جیسے کسی نتیجے پر پہنچ گئی تھی۔ اس کے چہرے پر ایسا سکون تھا کہ شبیر حقانی جیسا جہاں دیدہ شخص بھی اس کے چہرے سے اندازہ نہیں لگا پایا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے؟ ” ٹھیک ہے۔ تم میری بات مان لو۔ اپنی عزت کا خیال رکھو اور مجھے کچھ نہیں چاہیے۔“ اسے اور بہت سی نصیحتیں کرنے اور خوب سارا سمجھانے کے بعد وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔” آپ بھی وہی روایتی سے مرد نکلے ڈیڈی! “ ان کے جاتے ہی وہ پھر سے کھڑکی میں آن کھڑی ہوئی تھی۔ ” آپ سمیت سب کو یہی کیوں لگتا ہے کہ عباد سر سے مجھے وقتی کشش ہے۔ کسی کو یقین کیوں نہیں آتا کہ مجھے واقعی ان سے محبت ہے۔“ ایک آنسو آنکھ سے گر کر چہرے پر لڑھک گیا تھا۔” اور راستے کی مشکلوں سے گھبرا کر محبتوں سے دست بردار ہونا عشاق کا شیوہ نہیں ہوتا۔ “اس نے چہرے پر آیا آنسو انگلیوں سے پونچھا تھا اور کچھ سوچ کر مسکرا دی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Khan Mahnam

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Classic Web specials All Episodes

Dhoop Chaon Ka Aalam by Saira Naz (All Episodes)

Episode 1 Episode 2 Episode 3 Episode 4 Episode 5 Episode 6 Episode 7 Episode 8 Episode 9 Episode 10
Classic Web specials All Episodes

Dil O Janam Fida E Tu by Aniqa Ana All Episodes

Episode 1 Episode 2 Episode 3 Episode 4 Episode 5 Episode 6 Episode 7 Episode 8 Episode 9 Episode 10