ایلسی جاہ طبیعت میں گرانی
محسوس کرتے، وقت سے پہلے ہی سرِ شام بستر پر جا پہنچی تھیں۔ ” ایلسی! کیا ہوا ہے تمھیں؟“ ابھی شام کے چھ بھی نہیں بجے تھے۔ اسفند جاہ کمرے میں داخل ہوئے تو وہ آنکھوں پہ بازو دھرے لیٹی ہوئی تھیں۔” ایلسی! کیا ہوا ہے؟ ایسے کیوں لیٹی ہوئی ہو؟“” ہاں! طبیعت کچھ گری گری سی محسوس ہو رہی تھی۔“ انھوں نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹائے بغیر ہی جواب دیا تھا۔” طبیعت میں یہ بوجھل پن کہیں اس وقت سے تو محسوس نہیں ہو رہا جب سے وہ شخص تم سے مل کر گیا ہے؟ “ان کا لہجہ سرسری سا تھا تاہم ایلسی جاہ کو اندر تک ہلا گیا تھا۔” ایسا کون تھا جو تم سے ملنے گھر تک پہنچ گیا؟ “” وہ میرا۔۔۔ “اب کے آنکھوں سے ہاتھ ہٹانا ہی پڑا تھا۔” کیا؟ “انھوں نے استفہامیہ نظروں سے دیکھا تھا جیسے جملہ مکمل سننے کے انتظار میں ہوں۔” وہ میرا پرانا واقف کار ہے۔ “اب کے مزید بے نیازی روا رکھنا ایلسی جاہ کے لیے خطرے کا باعث تھا۔ لہٰذا بہت نپے تلے لفظوں میں بولی تھیں۔” پرانا واقف کار۔۔۔ “وہ استہزا سے کہتے ہنس دیے تھے۔” شاید تم پرانا آشنا کہنا چاہ رہی ہو گی۔ “الفاظ کے ساتھ لہجہ بھی کاٹ دینے والا تھا۔” یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں اسفند؟ “وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھی تھیں۔ الفاظ کیا چبھے تھے کہ بات چیت اور مخاطب کرنے کا انداز ہی بدل گیا تھا۔” ضربان کرمانی کون ہے ایلسی؟ “اب کے وہ حد درجہ سنجیدگی اور سختی سے گویا ہوئے تھے۔ آنکھوں میں سرد تا تاثر لیے وہ یک ٹک ان کے زرد پڑتے چہرے کو نگاہوں میں مرکوز کیے ہوئے تھے۔” میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ۔۔۔ “ ” آپ۔۔۔! “ اسفند جاہ ہنسے تھے۔ اس وقت انھیں اندازہ ہوا تھا کہ چوری پکڑے جانے، عیب کھل جانے کا خوف کس قدر شدید ہوتا ہے؟ اتنا شدید کہ انسان اپنے مزاج کی ساری اکڑ سارا کر و فر اور طنطنہ بھول جاتا ہے۔ ایسا ہی حال ہوتا ہے جیسا اس وقت ایلسی جاہ کا ہو رہا تھا۔ ابھی تو نامہ اعمال کھلا نہیں تھا صرف ایک نام ہی سامنے لایا گیا تھا اور وہ یوں مرجھا گئی تھیں جیسے خزاں کے موسم میں کسی عمر رسیدہ درخت کے پتوں پر خزاں اپنی پوری شدت سے اتری ہو۔ اگر جو سارا کچا چٹھا سامنے آتا تو۔۔۔(نامہ اعمال کھولنے والے، کچا چٹھا سامنے لانے والے تم کون ہوتے ہو اسفند جاہ؟) کوئی ان کے اندر پوری شد و مد سے بولا تھا۔” نامہ اعمال دیکھنے والی رب کی ذات ہے اور اعمال کی پرسش کرنا اسی کو زیب دیتا ہے۔ تم کون ہوتے ہو؟“ اس آواز کا تازیانہ اتنا شدید تھا کہ وہ ایک جھرجھری لے کر رہ گئے تھے۔ نگاہوں کا زاویہ بدلا اور وہ رخ موڑ گئے تھے۔(یہ سب جو ہوا، ہو رہا ہے اللہ کی مصلحت۔۔۔) انھوں نے خود کو تسلی دی تھی کہ تبھی لہیم جاہ کی کہی بات کی بازگشت کہیں آس پاس ہی سنائی دینے لگی تھی۔(اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے اپنےاعمال کو مصلحت کا جامہ پہنانا، کم زور اور بزدل مردوں کا طریقہ کار ہوتا ہے۔) وہ سر جھٹک کر اس خیال کو جھٹکتے ہوئے اٹھ بیٹھے تھے اور کچھ دیر بعد اسی خاموشی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئے تھے۔ ایلسی جاہ انھیں خاموشی سے جاتا دیکھ کر ہر بار کی طرح یہی سمجھی تھیں کہ محبت کا تیر پھر سے اپنا کام کر گیا تھا۔ اس بات سے ان جان کہ اس بار ان کا تیر خطا ہو گیا تھا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭