Uncategorized

Ek Jot Jali Matwali Si by Saira Naz Last Episode 23 Online Reading

وقت نے یوں ہی گزرتے کئی ادوار مکمل کیے تھے۔۔۔ اس گزرے عرصہ میں فاکہہ پوری طرح مواحد کے رنگ میں رنگ گئی تھی۔۔۔ اسے دیکھ کر کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ماضی میں یہ لڑکی کتنی سر پھری اور انا پرست ہوا کرتی تھی۔۔۔ آج اور کل کی فاکہہ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔ آج واسطی خاندان میں اس کی نرم خوئی اور معاملہ فہمی کی مثالیں دی جاتیں جو کبھی خود اذیتی کی انتہا پر ہوا کرتی تھی۔۔۔ یہ ایک خوب صورت شام کا منظر تھا جب اپنے گھر کی چوکھٹ پہ کھڑی فاکہہ کے اندر کے کچھ خوف آج ایک عرصہ بعد پھر سے امڈ کر سامنے آئے تھے۔۔۔ وہ پوری شدت سے مواحد کی آمد کی منتظر تھی۔
”فاکہہ! خیریت؟ یہاں ایسے کیوں کھڑی ہو؟“ سیاہ و خاکی وردی میں ملبوس مواحد کی جیپ گھر کے احاطے میں آ کر رکی تو اسے رہائشی عمارت کے دروازے میں ایستادہ دیکھ کر وہ حیرانگی سے کہتا اس کی طرف آیا کہ وہ تو ہمیشہ اندر قیام گاہ میں اس کی منتظر رہا کرتی تھی۔
”کچھ نہیں بس ایسے ہی!“ اس کے محبت بھرے حصار میں اندر کی جانب بڑھتی، وہ مواحد کو کچھ الجھی ہوئی لگی تھی۔
”پچھلے کچھ دنوں سے میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔“ وہ اس کے خود سے بولنے کا منتظر تھا اور پھر اسے زیادہ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔۔۔ قیام گاہ کے سرے تک آتے آتے وہ اپنی بات شروع کر چکی تھی۔
”کیا ہوا؟ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ میں سب کام چھوڑ کر آ جاتا۔“ اس کے لہجے میں فکر مندی گھلی تھی جو پچھلے چار پانچ دنوں سے کسی کیس کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔
”نہیں! میں اب ٹھیک ہوں۔۔۔ میں بس آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہوں۔۔۔ میں ڈاکٹر کے پاس گئی تھی۔۔۔ سب ٹھیک ہے لیکن۔۔۔” بے ربطگی سے بولتی، وہ شاید رو دینے کے درپے تھی۔
”فاکہہ! تم مجھے پریشان کر رہی ہو۔“ اسے لے کر ایک صوفے پر بیٹھتے پریشان سے مواحد نے الجھن آمیز انداز میں کہا تھا۔
”مواحد! میں اگر ایک اچھی ماں نہ بن سکی تو؟“ وہ عجیب ڈرے سے لہجے میں مستفسر ہوئی تھی۔
”فاکہہ! تم یہ کیسی۔۔۔؟“ وہ بات کرتے کرتے رکا اور پھر اس کے چہرے پر ایک بھرپور مسکراہٹ پھیلی تھی۔
”ابھی کیا کہا تم نے؟ تم ماں۔۔۔ مطلب ہم ماما پاپا بننے والے ہیں؟“ مواحد کے پریشان لہجے میں یکلخت خوشی کی آمیزش ہوئی تھی۔
”تم رو کیوں رہی ہو؟ یہ تو اتنی خوشی کی بات ہے۔“ وہ اس کے ایک دم رو دینے پر حیران رہ گیا تھا۔
”مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔“ اس کی بات پر وہ نا سمجھی سے اسے دیکھے گیا۔
”کیسا ڈر؟“ مواحد نے اس کے ہاتھ تھام کر سہلاتے، پوچھا تھا۔
”میں بھی اگر اپنے بچوں کی تربیت میں کوتاہی کا شکار ہو گئی تو پھر؟“ اس کے خوف تک رسائی پاتے، وہ ایک گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔
”تم بلا وجہ پریشان ہو رہی ہو۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے کہ تم ایک بہت اچھی ماں ثابت ہو گی۔“ مواحد نے اسے اپنے ساتھ لگاتے، تسلی آمیز لہجے میں اس کی تشفی کروانا چاہی تھی۔
”مواحد! ایک عورت جب ماں بنتی ہے تو اس کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں اس امتحان میں ناکام نہ ہو جاؤں۔“ آج کتنے عرصہ بعد مواحد کو اسی پرانی فاکہہ کی جھلک دِکھی، جو بہت جذباتی ہوا کرتی تھی۔
”فاکہہ! ادھر دیکھو میری طرف!“ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اس نے نرم روئی سے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔
”تم بالکل پرسکون ہو جاؤ اور ان ساری فالتو سوچوں کو اپنے ذہن سے جھٹک کر بس اس لمحے کو محسوس کرو۔ بابا ہمیشہ کہتے ہیں کہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے والے بہت بہادر ہوتے ہیں لیکن انھی کوتاہیوں کو اپنے سر پہ سوار کر لینا بزدلی کی نشانی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ تم اتنی کم ہمت نہیں ہو کہ ایک بے وجہ کی سوچ کے پیچھے اپنے اتنے اہم پلوں کو گنوا دو۔“ پچھلے ایک عرصے سے مواحد کا لہجہ فاکہہ کے لیے کسی مرہم کا کام کر رہا تھا۔
”تمھیں آج سے، ابھی سے، اپنے مستقبل کو لے کر بس مثبت سوچنا ہے اور کسی بھی منفی سوچ کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا۔۔۔ جو لڑکی اپنے شوہر کی محبت میں اپنی ‘میں’ بھلا کر صرف ‘ہم’ کے کلیے پر عمل پیرا ہے، وہ اپنی اولاد کے لیے کتنی سود مند ہو گی یہ بات مجھے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں بلکہ وقت خود اس کی سچائی ثابت کرے گا۔۔۔ تم صرف یہ سوچو کہ تمھیں ایک بہت اچھی ماں بننا ہے تو تم یہ ضرور کر پاؤ گی۔۔۔ ہمارا رب ہمیں ہمارے گمان کے مطابق نوازتا ہے سو تم بھی اس سے اچھے کی امید رکھو تو تمھیں کبھی بھی مایوسی اور ناکامی کا چہرہ نہیں دیکھنا پڑے گا۔۔۔ کچھ آیا سمجھ میں؟“ فاکہہ کو لگا کہ کوئی بہت مان اور چاہت سے اس مے زخموں پہ پھاہے رکھ رہا ہو۔
”مواحد! آپ بہت اچھے ہیں۔“ وہ پرسکون سی ہو کر بولی تو مواحد قہقہہ لگا کر ہنس دیا کہ اسے اب اس جملے کی اتنی عادت ہو چکی تھی کہ اگر کبھی ان کی گفتگو کے دوران فاکہہ اس بات کا اظہار نہ کرتی تو اسے اپنی گفتگو ادھوری لگتی تھی۔۔۔۔ اس کہانی کے یہ دو کردار ایک آسودگی بھری زندگی گزار رہے تھے کیوں کہ انھوں نے اپنا آپ بدلنے کو بدلے پر ترجیح دی تھی۔۔۔ انسان جب اپنی قسمت کے فیصلے اپنے رب پر چھوڑ دیتا ہے تو پھر اسے بہترین سے نوازا جاتا ہے۔
_۔
ختم شد

آپ نے اگر اس کہانی سے کچھ بھی سیکھا ہے تو مجھے ضرور بتایے گا۔۔۔ میں اس سفر کے اختتام پر اپنی گرو جی ‘انیقہ انا’ کی بے حد مشکور ہوں کہ ان کی شفقت بھری سنگت میں یہ سفر بے حد دلچسپ رہا۔۔۔ بہت سی جگہوں پر ان کی تصحیح و درستگی کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی میرے لیے بہت سود مند رہی۔۔۔ اس سفر کے دوران میری زندگی میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں، تب سیما شاہد اور انیقہ انا کے بعد ایک اور لڑکی بھی تھی جو میری ہمت ٹوٹنے پر مجھے پھر سے لکھنے پر اکسانے لگتی تھی۔۔۔ میں اس کی محبت کو بھی سلام کہتی ہوں۔۔۔ میں سب سے آخر میں فریال خان اور قنوی غازی کی بے حد مشکور ہوں، جن کے توسط سے آپ تک تمام اقساط کا لنک اور پیاری پیاری سی ایڈٹس پہنچتی رہیں۔
خوش رہیں، آباد رہیں۔۔۔ آمین

Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,