Uncategorized

Ek Jot Jali Matwali Si by Saira Naz Last Episode 23 Online Reading


”میں جامعہ کے آخری سال میں تھا، جب بابا جان نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور پھر ہماری دنیا ہی الٹ گئی۔۔۔۔ ماما کی دگرگوں حالت اور بابا جان کا اپنی ہار کا اعتراف میرے اندر ایک آگ سی بھڑکا گیا تھا۔۔۔ ہم دونوں بھائی چاہتے تھے کہ اتنا سب ہونے کے بعد وہ اپنے قدم پیچھے نہ لیں لیکن وہ ہماری ایک بھی سنے بنا گھارو منتقل ہو گئے۔۔۔ تب پہلی بار میں نے افلاک واسطی اور اس کے خاندان کے لیے اپنے اندر نفرت پنپتی محسوس کی۔۔۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، اس سارے قصے میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے، میں بدلہ ضرور لوں گا اور پھر تب میں نے آہستہ آہستہ افلاک واسطی کے بارے میں جان کاری حاصل کرنا شروع کی۔۔۔ بھائی کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، میں وہ جاننے سے قاصر تھا لیکن میں اتنا ضرور جانتا تھا کہ وہ بھی سکون سے نہیں ہیں۔“ وہ اپنی نگاہیں فاکہہ کے ہاتھوں پہ جمائے ہوئے تھا، گویا اسے ڈر ہو کہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے، وہ اپنی بات مکمل نہیں کر پائے گا یا پھر شاید وہ اس ذکر کے چھڑنے پر اس کے چہرے پہ پھیلتی تکلیف برداشت کرنے کا یارا نہ رکھتا تھا۔
”میں روز رات کو سونے سے پہلے جب خود کو یہ باور کرواتا کہ مجھے انتقام لینا ہے، تب ہی ایک نازک سا سراپا بھی چھم سے میرے ذہن کے پردے پر اتر آتا جو پچھلے ایک عرصہ سے میری نیند کا دشمن بنا ہوا تھا۔۔۔ میں آنکھیں موندتا تو بھی اسی کی شبیہ میری آنکھوں کے سامنے لہراتی تھی لیکن اب اس کے ساتھ ہی ساتھ افلاک واسطی کا وجود بھی میرے دل و دماغ پر حاوی رہنے لگا تھا۔۔۔۔ جب میری سماعتیں اپنی ماں کے منھ سے اپنا نام سننے سے محروم رہتیں تو میرا دل چاہتا کہ میں ابھی جا کر اس شخص کو جلا کے بھسم کر دوں جس نے مجھے اس اذیت سے نوازا ہے۔۔۔۔ میں جو سارے خاندان اور قرابت داروں میں اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے مشہور تھا، اب بات بے بات غصہ کرنے لگا اور اس دن میری بے بسی کی انتہا ہوئی جب خوابوں خیالوں کے بعد میں نے حقیقت میں بھی اپنی محبت اور نفرت کو ایک ساتھ دیکھا۔“ وہ بات کرتے کرتے خاموش ہوا، یوں جیسے اپنی آنکھوں کی نمی کو پیچھے دھکیلنا چاہتا ہو یا پھر اپنی اذیت پہ قابو پانا چاہتا ہو جو یہ سب یاد کر کے اسے ہو رہی تھی۔۔۔ فاکہہ خاموشی سے اس کے جھکے سر کو دیکھتی رہی۔۔۔ وہ کچھ بول کر ان لمحوں کے فسوں کو زائل نہیں کرنا چاہتی تھی، جہاں کوئی اس سے بے پایاں محبت کا داعی تھا۔۔۔ چند پل بعد دوبارہ اس کی آواز گاڑی میں گونجی تھی:
”میں ایک دوست کے توسط سے افلاک واسطی کے خاندان کے بارے میں کافی معلومات لے چکا تھا۔۔۔ حال ہی میں اس کی بڑی بیٹی اور بھتیجے کی عین ان کی شادی والے دن موت ہوئی تھی اور اس کی چھوٹی بیٹی دماغی مریضہ بن کر ایک ماہرِ نفسیات کے پاس جا رہی تھی۔۔۔ یہ خبر میرے لیے کسی ٹھنڈی پھوار جیسی تھی لیکن اندر سے میں کہیں نا کہیں اس سب سے افسردہ بھی تھا کہ ان کے باپ کے کیے کی سزا شاید اس کے بچوں کو مل رہی تھی۔۔۔۔ انھی دنوں موحد بھائی نے پولیس کی نوکری شروع کرنے کے بعد ماما کے لیے ایک بہت ہی اچھے ڈاکٹر سے وقت لیا تھا لیکن کوئی ضروری کام آن پڑنے کی وجہ سے انھوں نے یہ ذمہ داری میرے سر ڈال دی کہ میں ماما اور بابا کو وہاں لے جاؤں۔۔۔ میں ان کا معائنہ کروانے کے بعد ان دونوں کو گاڑی میں بٹھا کر خود ادھر موجود فارمیسی کی جانب جا رہا تھا جب وہاں آگے پیچھے دو گاڑیاں آ کر رکیں۔۔۔ ایک گاڑی میں اسلحہ بردار محافظ تھے جب کہ دوسری گاڑی میں سے برآمد ہونے والے نفوس کو دیکھ کر مجھے سر پہ تنا آسمان خود پہ ٹوٹتا محسوس ہوا۔۔۔۔ جہاں افلاک واسطی کو دیکھ کر میرے اندر ایک آگ سی بھڑکی تھی، وہیں اس کے ساتھ موجود لڑکی کو دیکھتے ہی میرا دل چاہا کہ میں ٹھاٹھیں مار مار کر روؤں۔۔۔۔ یہ ادراک کہ جس کی چاہت ایک عرصہ سے میرے دل میں پنپ رہی ہے، وہ میرے اولین دشمن کی بیٹی ہے، یہ میرے اعصاب پر ایک کاری وار تھا۔۔۔ اس رات پہلی بار انتقام اور محبت کے سوا بھی میں نے کوئی جذبہ محسوس کیا اور وہ تھا بے بسی کا ایک بھرپور احساس! زندگی سے بھرپور اس لڑکی کو یوں اجڑی ہوئی حالت میں دیکھنا، میرے اعصاب پہ ایک کاری وار تھا۔۔۔۔ میں بھلے سے کبھی زوہیب یا مائدہ سے بلا واسطہ ملا نہیں تھا لیکن تم سے ہوئی اتفاقیہ ملاقاتوں میں مجھے یہ باور ضرور ہو گیا تھا کہ وہ دونوں تمھاری زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اب یوں ان کی اچانک موت پہ تمھیں لگنے والا صدمہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔۔۔ مجھے اس دن تمھاری تکلیف کے آگے اپنی اذیت ہیچ لگی تھی۔۔۔ میں اپنی ماما کی آواز نہیں سن سکتا تھا لیکن وہ میرے سامنے تو تھیں۔۔۔ میں جب چاہے انھیں دیکھ اور محسوس کر سکتا تھا۔۔۔۔ جب کہ تمھارے پیاروں تو منوں مٹی تلے دبے تھے۔۔۔ اس دن مجھے سمجھ آیا کہ دنیا میں بدلے اور انتقام سے زیادہ طاقت ور شے بھی اپنا وجود رکھتی ہے اور وہ ہے کسی کی بے پایاں چاہت! یہ ادراک ہوتے ہی میرا دل بغاوت پہ اترا تو میرے دماغ نے بھی کئی دلائل دینے شروع کر دیے۔۔۔ میں نے وہ رات اور اس کے بعد بھی کئی راتیں نم آنکھوں کے ساتھ جاگتے ہوئے کاٹی تھیں۔“ گاڑی میں ایک بار پھر بوجھل سی خاموشی در آئی تھی۔۔۔ فاکہہ آنکھوں میں ڈھیروں استعجاب لیے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جو دیوانگی کی حد تک اسے چاہتا تھا۔۔۔ اس کی باتوں نے تو اس کی گویائی ہی چھین لی تھی۔۔۔ مواحد نے بھلے کھل کر نہیں کہا تھا لیکن وہ تو یہ سوچ کر ہی دنگ رہ گئی کہ جب اس کے ماں باپ مارے باندھے فقط ایک ذمہ داری نبھا رہے تھے، تب کوئی راتوں کو اس کے لیے روتا رہا تھا۔۔۔ اس سب کے بیچ ایک سوال اور بھی تھا اس کے ذہن میں کہ اس سارے قصے میں اگر بدلہ اپنے معنی کھو چکا تھا تو پھر جو ان کے نکاح کے بعد ہوا، وہ کیا تھا؟ لیکن وہ چاہتی تھی کہ وہ پہلے اپنی بات مکمل کر لے تاکہ پھر ہی وہ کوئی نکتہ اٹھا سکے۔۔۔۔ مواحد کی آواز سے ایک بار پھر گاڑی کی ساکت فضا میں ارتعاش پیدا ہوا تھا:


Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,