Uncategorized

Ek Jot Jali Matwali Si by Saira Naz Last Episode 23 Online Reading


”مجھے میرا مقصد بھول گیا اور اگر کچھ یاد رہا تو اس کومل سی لڑکی کی تکلیف! جو اسے اپنی بہن اور بھائیوں سے بڑھ کر بہنوئی کو کھونے پر ہوئی تھی۔۔۔ میں سب پس پشت ڈال کر تمھاری ٹوہ میں لگ گیا۔۔۔۔ میں کسی طرح اسپتال سے تمھاری اس ماہر نفسیات سے ملاقات کے اوقات کار جان گیا اور جب بھی تم اسپتال آتیں تو میں وہیں موجود رہتا۔۔۔ میں بھلے سے نہیں جانتا تھا کہ تم درحقیقت کس اذیت سے گزر رہی ہو لیکن مجھے یہ اطمینان ضرور رہتا تھا کہ اس وقت میں تمھارے ساتھ ہوں۔۔۔ تم ہر بار جب اس کمرے سے باہر نکلتی تو میں جانچتی نگاہوں سے تمھارا چہرہ کھوجتا کہ شاید آج اس پہ چھائی پژمردگی میں کچھ کمی ہوئی ہو اور تمھاری حالت جوں کی توں دیکھ کر میں تاسف زدہ سا لوٹ آتا۔۔۔ کئی بار میرے دل میں خیال آتا کہ تم سے بات کروں، تمھارے خیالات جانوں لیکن تمھارے اردگرد پھیلے محافظوں کی موجودگی میں ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔۔۔ میرا جی چاہتا کہ تم مجھ سے اپنے دل کا درد بانٹ لو مگر ہمارے بیچ یک طرفہ محبت کے سوا کوئی تعلق واسطہ ہی نہ تھا۔۔۔ میرا دل شدت سے تمھاری آواز سننے کو چاہتا اور پھر ایک دن تم مجھے اکیلے نظر آئیں۔۔۔۔ تم گھر جانے کے لیے وہاں بیٹھی تھیں لیکن اسپتال کے احاطے میں کوئی مسئلہ ہوا تھا اور تمھارے محافظ بھیڑ چھٹنے تک تمھارے پاس نہیں تھے۔۔۔ میں دھڑکتے دل کے ساتھ تمھارے ساتھ آن بیٹھا۔“ فاکہہ دھڑکتے دل سے اسے وہ وقت یاد کرتے دیکھ رہی تھی، جب اس نے پہلی بار اس سے اعتراف محبت کیا تھا۔
”فاکہہ! میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔ تم مجھے بتاؤ کہ تمھارے دل میں کیا ہے؟ تم اپنا ہر غم مجھ سے کَہ دو، میں تمھیں سمیٹ لوں گا۔۔۔ میں تمھیں بہت خوش رکھوں گا۔“ اطراف میں نگاہ دوڑاتے وہ سیدھا مدعے پر آیا کہ اس کی حالت دیکھتے، اس کے پاس اسے سمیٹنے کو محبت کے سوا کوئی چارہ ہی نہ تھا۔
”محبت!“ فاکہہ نے اجنبی نظروں سے اسے دیکھتے، سرگوشیانہ انداز میں کہا تو مواحد نے جھٹ اثبات میں سر ہلایا تھا۔
”خوشی؟“ اس بار اس کا لہجہ الجھن آمیز تھا۔۔۔ مواحد اس کی ہاں میں ہاں ملانے کے ساتھ ہی ساتھ گرد و پیش کا بھی جائزہ لے رہا تھا۔
”تم خوش ہونا چاہتی ہو نا؟“ کسی کے آ جانے کے خطرے کو پس پشت ڈال کر وہ ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گویا ہوا تھا۔
”خوش! نہیں! میں خوش نہیں ہونا چاہتی۔۔۔ مجھے کوئی حق نہیں خوش ہونے کا۔۔۔ جاؤ تم! جاؤ یہاں سے۔۔۔ مجھے خوش نہیں ہونا۔“ اس کی بات پر کچھ پل وحشت بھری نظروں سے اسے دیکھتے رہنے کے بعد وہ ہولے ہولے بولتی، ایک دم ہذیانی انداز میں چیخنے لگی تھی۔۔۔ اس کے یوں چلانے پر وہ حواس باختہ سا ہوتا، اسے سنبھالنے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہ بنا جل مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی تھی۔۔۔۔ شور کی آواز پر وہاں موجود اور لوگ بھی ان کی طرف متوجہ ہوئے تو اسپتال کا عملہ بھی حرکت میں آیا تھا۔۔۔ پھر فاکہہ کے محافظوں کے بھی وہاں آ جانے پر انھوں نے سب کو پیچھے ہٹا دیا اور ان کی ہدایت پر اسے اندر ڈاکٹر کے کمرے میں لے جایا گیا تھا۔۔۔۔ مواحد کتنی ہی دیر وہاں بیٹھا رہا لیکن اسے فاکہہ کی حالت کے متعلق کوئی بھی خاطر خواہ خبر نہ ملی تھی۔۔۔ دو گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی افلاک واسطی یا نویرا میں سے تو کوئی وہاں نہ آیا لیکن کچھ دیر بعد ان کا سیکیورٹی چیف ضرور آ کر اسے اسپتال سے لے گیا تھا۔
”اس دن کے بعد میں نے تمھیں ایک بار پھر سے کھو دیا۔۔۔۔ میں جان نہیں سکا کہ افلاک واسطی نے ماہرِ نفسیات بدل لیا تھا یا کوئی اور متبادل طریقہ اپنا لیا تھا۔۔۔ جو بھی تھا، اس واقعہ کے بعد میرے دل میں تمھاری تمنا کچھ اور شدت پکڑ گئی۔۔۔ میں اٹھتے بیٹھتے صرف تمھارے بارے میں ہی سوچا کرتا۔۔۔ مجھے بھول گیا کہ مجھے کوئی بدلہ لینا ہے، یاد رہا تو صرف یہ کہ مجھے تمھیں زندگی کی طرف واپس لوٹتے دیکھنا ہے۔۔۔۔ تمھارے اکثر و بیشتر تنہا اسپتال آنے پر مجھے اتنا تو سمجھ میں آ گیا تھا کہ تمھارے والدین کے پاس تمھارے لیے وقت ہی نہیں اور پھر مجھ پر حقیقت کا یہ در وا ہوا کہ جو شخص اپنی اولاد کو لے کر اتنا لاپروا ہو سکتا ہے، وہ بھلا کسی اور کو کیا انسان سمجھے گا۔۔۔ اس دن کی تمھاری دگرگوں حالت یاد کرتے، بارہا میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور میرا بس نہ چلتا کہ کہیں سے تم میرے سامنے آ جاؤ تو میں دنیا کی ساری خوشیاں تمھارے قدموں میں ڈھیر کر دوں۔۔۔ میں نے بہت کوشش کی مگر تمھارا سراغ نہ پا سکا۔۔۔ میری ماما کچھ بول نہیں سکتی تھیں لیکن میں جب بھی ان سے ملتا، انھیں تمھارے بارے میں سب بتاتا تھا۔۔۔۔ میں جب بھی ان سے اپنی شرمندگی کا اظہار کرتا کہ میں ان کے دشمن کی بیٹی سے محبت کر بیٹھا ہوں تو وہ ہمیشہ میرا سر سہلا کر مجھے اس ندامت سے نکال دیتی تھیں۔۔۔ میرے بالوں میں سرسراتی ان کی انگلیوں کی نرماہٹ مجھے یہ احساس دلاتی تھی کہ وہ کھلے دل سے میری محبت کو قبول کر چکی ہیں۔۔۔ تمھارے پھر سے کھو جانے کے بعد مجھے یوں لگتا کہ ان کی منتظر نگاہیں مجھ سے تمھارا پوچھتی ہیں اور میں ہر بار نفی میں سر ہلا دیتا تو ان کا چہرہ بجھ جاتا تھا۔“ فاکہہ تو بس اپنے ذہن پر زور ڈال رہی تھی کہ یہ واقعہ اس کی یادداشت میں محفوظ کیوں نہیں ہے لیکن ان دنوں اس کی ذہنی کیفیت ایڈی تھی کہ یہ کیا، اسے تو وہ کچھ عرصہ کلی طور پر بھول چکا تھا، جب اس نے مائدہ اور زوہیب کی موت کا سوگ مناتے، اپنا آپ بھی بھلا دیا تھا۔
”میں پوری کوشش کر رہا تھا کہ کہیں سے تمھاری کوئی خیر خبر مل جائے لیکن مجھے ہر بار ناکامی کا منھ دیکھنا پڑتا۔۔۔ ایک رات ہم سب گھارو میں جمع تھے تو موحد بھائی نے پھر سے وہی ذکر چھیڑ دیا جس میں وہ ہمیشہ بابا کو واپس کراچی چلنے اور سیاست میں آنے پر اکسایا کرتے تھے لیکن ہم بابا کا جواب نہ بدل سکے۔۔۔ وہ واشگاف الفاظ میں کَہ چکے تھے کہ انھیں اب کوئی تبدیلی، کوئی انقلاب نہیں لانا لیکن موحد بھائی بضد رہے تو بابا جان نے کہا کہ ‘جو شخص اپنی ہی بیٹی کا سہاگ اجاڑ سکتا ہے، ان میں اس سے مقابلے کی سکت نہیں ہے۔’ اس دن پہلی بار میں نے جانا کہ افلاک واسطی پر اپنے ہی داماد کے قتل کا الزام آیا تھا لیکن وہ اس سے بچ نکلنے کے بعد اس کے قاتلوں کو سزا دلوا چکے ہیں۔۔۔ بھلے سے دنیا کی نظر میں زوہیب کے قاتلوں کو سزا مل چکی تھی لیکن بہت سے باشعور لوگوں کا یہی ماننا تھا کہ اس سب کے پیچھے وہ خود ہے۔۔۔ اس دن مجھے اس شخص سے پہلے سے کئی زیادہ نفرت محسوس ہوئی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے نا صرف اپنی ماما بلکہ تمھارا بدلہ بھی لینا ہے اور تمھیں اس جلاد کے چنگل سے چھڑا کر بھی لانا ہے۔۔۔۔ میں نے بھائی سے تمھارا ذکر تو نہیں کیا لیکن ان سے افلاک واسطی کی بابت بات ضرور کی تو وہ بھی میرے ہی ہم خیال تھے کہ ہم بدلہ ضرور لیں گے۔۔۔ یہ سب ایسے ہی چل رہا تھا مگر پھر کچھ ایسا ہوا کہ ان کی سوچ یکسر بدل گئی اور وہ پولیس کی نوکری چھوڑ کر گھارو چلے گئے۔۔۔ وہ ذہنی طور پر بہت الجھے ہوئے تھے سو بابا جان نے ان کی حالت کے پیش نظر سادگی سے نشرہ بھابھی کی رخصتی کروا لی جو کہ ہماری پھپھی زاد اور ان کی نوعمری کی محبت تھی۔۔۔ ایک مخلص جیون ساتھی کی قربت میسر آئی تو وہ بھی سنبھل گئے لیکن انھوں نے واپس پولیس میں جانے سے انکار کر دیا اور بحیثیت وکٹم کیئر افسر اپنے فرائض سر انجام دینے لگے۔۔۔ بظاہر سب ٹھیک تھا لیکن ان کے اندر جلتے بدلے کے الاؤ کو کسی نے بجھا کر رکھ دیا تھا۔۔۔ وہ سارے فیصلے وقت اور حالات پر چھوڑتے بدلہ لینے سے انکاری ہو گئے لیکن میں ایسا نہیں کر سکا کیوں کہ مجھے صرف بدلہ ہی نہیں لینا تھا بلکہ تمھیں بھی پانا تھا۔۔۔۔ تم میری اولین چاہت تھیں اور میرے لیے اپنی زندگی میں تمھاری شمولیت ناگزیر ہو چکی تھی۔ میں ہمیشہ سے اپنا ایک کاروبار کرنا چاہتا تھا لیکن اس واقعہ کے بعد میں نے مقابلے کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور پھر میں خود پولیس کے شعبہ میں آ گیا۔۔۔ اس بیچ تم کبھی میرے ذہن سے محو نہیں ہوئیں۔“ وہ دم سادھے اس کی کہانی سن رہی تھی۔


Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,