مخمور دل کی شباب دھڑکن
گلاب لہجوں کے خواب یارم
نشیلی آنکھوں کی لرزتی چلمن
لرزتے ہونٹوں کے ابواب یارم
کلی کے کھلنے سے پھول بنتی
وہ دوشیزگی کا سیماب یارم
سرسرا کے چھوتی ہوا کی خوشبو
مشک بو گیسوؤں کا غرقاب یارم
مہتاب چہرے پہ حیا کا پہرہ
کرے ہے دل کو بیتاب یارم
صبیح پیشانی پہ جھولتی لٹ میں
اٹکے ہے سانسوں کا حساب یارم
اس کے کانوں میں لٹکتی بالی
کرے دل کو میرے عناب یارم
یہ کیسے کیسے محبت کے پہرے
محب کو کر دیں لاجواب یارم
جو میرے عشق کو دوام دے دے
کوئی ایسا بھی ہو حجاب یارم
سائرہ ناز
_۔
اس سب کے بعد وقت نہایت تیزی سے گزرا تھا۔۔۔ افلاک واسطی اور نویرا واسطی کو اسی رات ہوائی اڈے سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔۔۔ مرنے سے پہلے حسیب ہمدانی کے صوتی بیان، امین لغاری کی گواہی اور سب سے بڑھ کر مہران کے اقبال جرم نے ان کے گرد گھیرا کس دیا تھا اور جلد ہی ان کے کیس کا فیصلہ متوقع تھا۔۔۔ فاکہہ اور مواحد کی زندگی میں بھی اتنی مشکلات کے بعد بالآخر ٹھہراؤ آ ہی گیا تھا۔۔۔ ان کا رشتہ اس رات کے بعد ایک خوب صورت موڑ لے چکا تھا۔
”مواحد!“ وہ کچھ دیر قبل ہی گھر آیا تھا اور اب اس کے ہاتھ سے کھانا کھاتے فاکہہ نے پرسوچ انداز میں اسے مخاطب کیا تھا۔
”کیا یہ ضروری ہے؟“ اس نے کھانے سے ہاتھ روک کر سوال کیا تھا۔
”کیا؟“ وہ جب بھی یوں حیران ہو کر، اپنی آنکھیں پھیلاتے، ان میں حیرت بھر کر اسے دیکھتی تو مواحد کو ایک نئے سرے سے اس پر پیار آتا تھا۔۔۔ اس کی محبت دھیمی آنچ پہ پک کر تیار ہوئی چائے جیسی خوش رنگ اور پر کیف تھی۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ وہ فاکہہ کے دل میں پنپتی کسی بھی خواہش کی خوش بو اس کے پھیلنے سے پہلے ہی پا لیا کرتا تھا۔
”وہی جو تم مجھ سے کہنا چاہ رہی ہو۔“ اسے اپنی محبت پاش نگاہوں کے حصار میں رکھتے وہ مسکرا کر اسے جواب دہ ہوا تھا۔
”آپ کیسے ہر بار میرے دل کی بات جان لیتے ہیں؟“ اس کی حیرت دو چند ہوئی تھی۔
”وہ اس لیے کیوں کہ ہم آپ کے دل میں رہتے ہیں۔“ اس نے محجوبانہ انداز میں کَہ کر میز پہ دھرا اس کا ہاتھ اٹھا کر اپنے دل کے مقام پہ رکھا تھا۔
”تو پھر کب لے کر جا رہے ہیں مجھے؟“ وہ یقیناً اپنے والدین سے ملاقات کی متمنی تھی۔
”اس کے لیے باقاعدہ اجازت کی ضرورت پڑے گی۔۔۔ میں کل دیکھتا ہوں۔“ مواحد نے بنا کسی بحث کے ہی بات سمیٹ دی کہ اس کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہ تھی۔
”کیا دیکھ رہے ہیں؟“ اپنی اپنی بات کَہ کر وہ پھر سے کھانے کو جت گئے لیکن پھر اچانک مواحد نے کھانا چھوڑ کر اپنی ساتھ والی کرسی پر براجمان فاکہہ کو دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ اس کے یوں دیکھنے پر اس نے نوالہ چباتے ہوئے پوچھا تھا۔
”تم مجھ سے ناراض تو نہیں ہو نا؟“ اس کا اشارہ یقیناً ماضی میں ہوئی کوتاہیوں اور پھر اس کے والدین کی گرفتاری کی طرف تھا۔
”بالکل بھی نہیں! میں ہمیشہ سے ہی میڈی اور زیبی کے قاتلوں کو سزا دلوانا چاہتی تھی۔“ فاکہہ کو اسے یہ جواب دیتے، کسی بھی قسم کی دقت یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
”تم بہت بہادر ہو۔“ چند پل یوں ہی اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا تھا۔
”آپ کے ساتھ رہ کر ہو گئی ہوں وگرنہ میرے لیے تو ہر مسئلے کا حل خود اذیتی ہی تھی۔“ فاکہہ آج بھی ماضی میں بات بے بات اپنی خود کشی کی کوشش کو لے کر شرمندہ سی تھی۔
”تمھاری آنکھیں بہت خوب صورت ہیں فاکہہ!“ مواحد کو کہاں گوارا تھا؟ اپنی محبت کا یوں نادم ہونا سو جھٹ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر کر وہ گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔
”ان میں آپ کا عکس جو ہے۔“ فاکہہ کے جواب پر بے خود سا ہوتے مواحد نے اس کی پلکوں کو اپنے ہونٹوں کا خراج پیش کیا تھا۔
”تمھارے رخسار دہکتے الاؤ جیسے روشن ہیں۔“ اس کے لہجے کا بھاری پن کچھ مزید بڑھا تھا۔
”ان پہ آپ کی نگاہیں جو ٹھہریں۔“ اس شخص نے اس کی محبت میں اپنا بدلہ بھی بھلا دیا تھا تو پھر اتنی تکریم تو اس کا حق تھی۔۔۔ مواحد نے بھی اس کے عارضوں کو اپنے لمس سے گلنار کیا تھا۔
”تمھارے ہونٹوں کی لالی غضب ہے۔“ اس کا انگوٹھا فاکہہ کے لبوں پہ محو سفر تھا۔
”ان پہ آپ کے نام کا ورد جو ہے۔“ مواحد نے اب کی بار ان کی مٹھاس پورے دل سے محسوس کی تھی۔
”فاکہہ!“ کچھ بوجھل لمحوں کے بعد وہ اس کی پیشانی سے پیشانی ٹکائے اسے پکار رہا تھا۔
”آؤ میرے ساتھ!“ اس کے خاموشی سے خود کو دیکھنے پر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی سمت بڑھ گیا تھا۔
”پوچھو گی نہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟“ اسے بلا چوں چراں اپنے ساتھ چلتا دیکھ کر مواحد کو بے ساختہ ہر بات پہ سوال اٹھانے والی فاکہہ یاد آئی تو مسکراتے ہوئے پوچھ بیٹھا تھا۔
”میرے لیے سفر نہیں، آپ کا ساتھ معنی رکھتا ہے۔۔۔ پھر چاہے منزل کوئی بھی ہو۔“ اس نے صرف سنا تھا لیکن آج وہ اس بات پہ من و عن ایمان لے آیا تھا کہ محبت اپنے اندر خود سر سے خود سر انسان کو بھی سر تا پا بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جب اس نے فاکہہ افلاک کو اپنے لیے بدلتے دیکھا تھا۔۔۔ کہاں وہ بات بے بات جرح کرنے والی، آج اس کے منھ سے نکلے ہر لفظ کو حرف آخر تسلیم کرنے کو تیار رہتی تھی۔۔۔ مواحد کے عشق نے اس کے دل میں ایک ایسی متوالی جوت جلائی تھی کہ اس کا پور پور اس کی حدت سے مہک اٹھا تھا۔
”چاند کی چاندنی، ساحل کی گیلی ریت، تاحد نگاہ پھیلا سمندر اور من پسند جیون ساتھی کی قربت! کسی کو اس کے سوا اور کس چیز کی چاہ ہوگی بھلا؟“ کچھ ہی دیر بعد وہ دونوں ساحل سمندر پہ ایک ساتھ چہل قدمی کر رہے تھے۔۔۔ مواحد نے اپنے ساتھ چلتی فاکہہ کے کندھے کے گرد بازو پھیلا کر جذبوں سے چور لہجے میں اپنا حال دل عیاں کیا تھا۔
”کسی کے پُر حدت ہاتھوں کا لمس، خاموشی کو چیرتی تلاطم خیز لہروں کی مدُھرتا اور اس پر کیف منظر میں آپ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا! میرے لیے تو یہی حاصل زندگی ہے۔” وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے ساحل کی ریت پہ اپنے قدموں کے نشان چھوڑتے جا رہے تھے، جو مٹ بھی جاتے تو بھی بہت سوں کے لیے زاد راہ ہی رہتے۔۔۔ خود اذیتی سے خود شناسی تک کا یہ سفر ان کے لیے خاصا دلفریب رہا تھا۔
_____۔