Uncategorized

Ek Jot Jali Matwali Si by Saira Naz Last Episode 23 Online Reading

اس بڑے سے کمرے کے وسط میں رکھا گیا جہازی سائز بیڈ، دیوار پر لگی چالیس انچ کی ایل ای ڈی، کانچ کی کھڑکی کے آگے رکھے آرام دہ صوفے، چھوٹے حجم کا فریج اور اس کمرے سے ملحقہ غسل خانے اور باورچی خانے کو دیکھ کر وہ کہیں سے بھی کسی جیل کا کمرہ نہ لگتا تھا، جہاں افلاک واسطی اور نویرا واسطی کو بظاہر زیر حراست رکھا گیا تھا۔۔۔ یہ عیش و عشرت ثابت کرتا تھا کہ طاقت کے ایوانوں میں اب بھی افلاک واسطی کا کچھ حصہ باقی ہے جو بنا کسی دقت کے ان کے یہاں رہنے کا باعث تھا۔۔۔ ہمارے معاشرے میں مجرموں کے لیے مراعات کا یہ سلسلہ جب تک چلتا رہے گا، تب تک عدلیہ کی بالادستی کی امید رکھنا بے کار ہے۔۔۔ فاکہہ اندر داخل ہوئی تو اس کے والدین نے شرر بار جب کہ اس نے انھیں بے تاثر نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔ اس کے سامنے اس کی زندگی کا ایک ایسا دکھ تھا جس پہ جتنا رویا جائے، وہ کم ہو لیکن مواحد کی سنگت میں فاکہہ نے اب حالات سے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا تھا۔۔۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی ان کے سامنے ٹک گئی تھی۔
”کیوں آئی ہو یہاں؟“ نویرا واسطی کے رکھائی سے پوچھنے پر اس کا دل کٹا جب کہ افلاک واسطی خاموشی سے اسے دیکھتے رہے تھے۔۔۔ یہ اس دن اسپتال کے بعد ان کا پہلا سامنا تھا۔
”آپ کو یہ بتانے کے لیے کہ میں نے آپ کو خود پہ سہی ہر اذیت کے لیے معاف کیا۔“ فاکہہ کی بات پر ان دونوں نے ہی سر جھٹکا تھا۔
”ہمیں تمھاری معافی سے کوئی غرض نہیں ہے۔“ اگر سارے مجرم کوئی بھی گناہ کرنے کے بعد اپنی غلطی ماننے لگیں تو پھر دنیا سے برائی کا وجود ہی مٹ جائے لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی اپنا جرم تسلیم کر لے وگرنہ اکثریت غلطی کر کے ڈٹ جانے والوں کی ہی ہے اور نویرا واسطی کا تعلق بھی انسانوں کے اسی قبیلے سے تھا، جن کے لیے ندامت لفظ بے معنی ہوتا ہے۔۔۔ افلاک واسطی خاموش تھے سو وہ اس ضمن میں ان کا نظریہ جاننے سے قاصر تھی۔
”میں پھر بھی آپ کو معاف کرتی ہوں لیکن میرے علاوہ بھی آپ نے جن لوگوں پر ظلم کیے ہیں، ان کی معافی کی میں ذمہ دار نہیں۔۔۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اعتراف جرم کر کے، کھلے عام معافی مانگ لیں۔“ فاکہہ دل سے چاہتی تھی کہ وہ دونوں تائب ہو جائیں سو اس نے ملتجیانہ انداز اپنایا تھا۔۔۔ اب جانے اس کے منھ سے نکلی بات کوئی اثر رکھتی تھی یا نہیں؟
”ہم نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ زیادتی تو ہمارے ساتھ ہوئی ہے جو ہمیں جھوٹے الزامات لگا کر اس عقوبت خانے میں بند کر رکھا ہے۔۔۔ اور مزید ستم تو یہ ہے کہ ہماری اپنی ہی اولاد کسی بھی ایرے غیرے کے بہکاوے میں آ کر ہمارے خلاف محاذ آرا ہے۔“ نویرا نے تپے ہوئے لہجے میں دل کی بھڑاس نکالی تو وہ ماں کی اس غلط فہمی پر ایک گہرا سانس بھر کر رہ گئی تھی۔
”ماما! اس دنیا میں سب سے خوب صورت اور انمول رشتہ ایک ماں کا اپنی اولاد سے گردانا جاتا ہے تو پھر آپ کی ذات کا وہ کون سا رخ تھا جو آپ کو اپنی ہی بیٹی کا سہاگ اجاڑنے پر مجبور کر گیا؟ زیبی کو موت کے منھ میں دھکیلتے کیا ایک پل کو بھی آپ کا دل نہیں کانپا؟“ خاموشی سے ماں بیٹی کی گفتگو سنتے افلاک واسطی اس کی اس بات پر چونکے تھے۔
”فاکہہ!“ انھوں نے پہلی بار لب کشائی کرنا چاہی تو فاکہہ ان کے سوال سے پہلے ہی جواب دے گئی تھی:
”میں ٹھیک کَہ رہی ہوں ڈیڈ! آپ کے زوہیب کی قاتلہ آپ کی اپنی عزیز از جان بیوی ہے۔۔۔ آپ کو کسی اور کی بات پہ یقین نہیں آتا نا لیکن میرے کہے پر اعتبار کر لیں کہ یہی سچ ہے۔“ اس کی بات پر افلاک واسطی نے بے یقینی کے ساتھ نفی میں سر ہلایا لیکن کچھ کَہ نہ سکے کہ فاکہہ انھیں وضاحت دینے کے بعد اب اپنی ماں سے سوال کر رہی تھی:
”ماما! میرا آپ سے بس ایک سوال ہے۔۔۔ کیا طاقت و اختیار کی بھوک اور پیسے کی ہوس اتنی طاقت ور تھی؟ کہ جس زوہیب نے آپ کو ایک ماں کی طرح عزت دی، کبھی آپ کو بیٹے کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔۔۔ آپ کی بیٹیوں کے لیے ایک سایہ دار شجر بنا رہا۔۔۔ آپ کے شوہر کے کندھوں کا بوجھ اپنے سر لے لیا، آپ نے صرف ایک سیٹ کے لیے اسے جان سے ہاتھ دھونے پر مجبور کر دیا۔۔۔ ماما! کیا فرق پڑتا تھا؟ کہ وہ سیٹ ڈیڈ کے پاس ہوتی یا زیبی کے پاس۔۔۔ رہتی تو ہماری ہی نا تو پھر اپنوں پہ یہ ظلم کیوں؟“ اس کے سوال کسی چابک کے دستے کے وار سے بھی زیادہ کاری تھے۔
”فاکہہ! تم جاؤ یہاں سے۔“ نویرا واسطی نے ہر سوال کا جواب دینے سے انکار کیا تھا۔
”نہیں ماما! آج میں اپنے سوالوں کے جواب نہ بھی لے سکی، تو بھی یہاں سے جانے سے پہلے آپ دونوں کو حقیقت کا آئینہ ضرور دکھاؤں گی۔“ وہ بات کرتے کرتے پھر سے افلاک واسطی سے متوجہ ہوئی جو گنگ بیٹھے تھے۔۔۔ یہ زندگی نے کس موڑ پہ آ کر ان کی آنکھوں پہ بندھی پٹی اتاری تھی؟ بلاشبہ برائی کا بدلہ برائی ہی ہے۔۔۔ اکثر دوسروں پہ ظلم کرنے والے اپنوں کے ہاتھوں شکست کھا جاتے ہیں۔
”ڈیڈ! آپ کی آنکھوں کی سرخی بتاتی ہے کہ آپ اس وقت ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہے ہیں لیکن اس سب میں آپ بھی اتنے ہی قصور وار ہیں، جتنا کہ ماما!“ وہ ایک پل کے توقف کے بعد پھر گویا ہوئی تھی:
”میں نے جب بھی خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، آپ نے مجھے ڈانٹ دیا اور بات ختم! آپ نے کبھی یہ جاننے، یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس سب کے پیچھے کی وجہ کیا ہے؟ بابا کہتے ہیں کہ جب انسان کے رزق میں سے حلال اور حرام کی تمیز ختم ہو جائے تو اس کے خاندان کی تنزلی لازمی ہے اور آپ کی یہی خطا ہمارے راہوں میں خار بچھا گئی۔۔۔ آپ نے صرف رزق میں ہی یہ تفریق نہیں مٹائی بلکہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی آپ نے میرا نکاح پڑھوانا چاہا۔۔۔ نکاح پہ نکاح کی حرمت پہ اللّٰه پاک نے ایسی وعید سنائی ہے کہ انسان کی روح کانپ جائے اور ہم انسان مذہب کو سنجیدگی سے ہی نہیں لیتے۔۔۔ آج ہم اپنی اولاد کی دنیاوی تعلیم و تربیت پہ جس قدر جانفشانی سے کوشش کرتے ہیں، اتنی ہی شدت سے ہم اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات پہ عمل پیرا ہونے کا سبق کیوں نہیں دیتے؟“ فاکہہ کے لہجے میں نمی سی گھلی کہ اسے سچ میں یہ سب دہراتے خاصی تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔ اس نے اپنی بات کے دوران یقیناً آفتاب خاکوانی کا ذکر کیا تھا۔
”تمھارے شوہر نے خوب اچھے سے تمھاری ذہن سازی کر کے بھیجا ہے لیکن کیا اس نے تمھیں یہ نہیں بتایا کہ والدین کے کیا حقوق ہوتے ہیں؟“ نویرا واسطی کے ہاتھ نچا نچا کر پوچھنے پر وہ پھیکا سا مسکرا دی تھی۔۔۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ زندگی میں ایک مقام ایسا بھی آئے گا، جب وہ اپنی پڑھی لکھی بظاہر نفیس ماں کو یوں جاہلوں کی طرح بات کرتا دیکھے گی۔
”بالکل ٹھیک کہا ماما! یہ مواحد کی ہی دی ہوئی سیکھ ہے کہ میں اتنے رسان سے آپ سے بات کر رہی ہوں وگرنہ میں اگر وہی جذباتی فاکہہ ہوتی تو آپ کا گریبان تھام کر آپ سے سوال کرتی۔۔۔ آپ نے صرف مجھ سے میری بہن اور بھائی ہی نہیں چھینے بلکہ آپ نے مجھے زندہ ہوتے ہوئے بھی یتیم و یسیر کر دیا ہے۔۔۔ ویسے بھی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم لوگ اپنے فرائض سے دامن چھڑا کر صرف حقوق کی بات ہی کیوں کرتے ہیں؟ جانتی ہیں مواحد کون ہے؟ وہ اس آفتاب خاکوانی کا بیٹا ہے جس کی بیوی کو آپ نے اسی خاندانی سیٹ کے لیے اپنے عتاب کا نشانہ بنایا، جس نے زوہیب اور مائدہ کی بھی جان لی تھی۔“ فاکہہ کا دل دکھ سے بھرا تھا۔۔۔ جی چاہ رہا تھا کہ وہ دھاڑے مار مار کر روئے۔۔۔ کوئی اتنا بے حس کیسے ہو سکتا تھا؟ سامنے بیٹھی عورت اس کی ماں تھی لیکن اس کے چہرے پہ پھیلی رعونت اسے ممتا کے رتبے سے نیچے کھینچ رہی تھی۔
”آپ جانتی تھیں کہ زوہیب میڈی اور میرے لیے کتنا ضروری ہے لیکن آپ نے اسے مر جانے دیا جب کہ اس بیچ کوئی ایسا بھی تھا جو میری محبت میں اپنا بدلہ بھول گیا۔۔۔ آپ جانتی ہیں، آپ پر درج ہوئے مقدمات میں سے ایک بھی اس قصے سے منسلک نہیں کیوں کہ مواحد نے میری محبت کے صدقے آپ کو معاف کر دیا ہے۔۔۔ جب آپ مجھے ملازمین کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر اپنی زندگی کے جھمیلوں میں الجھے تھے، تب وہ اپنا بدلہ بھلا کر میرا ساتھ دینے کی کوشش میں تھا۔۔۔۔ میں ایک عرصہ اسے غلط سمجھتی رہی جب کہ وہ تو بس مجھے آپ کا اصل چہرہ دکھا دینا چاہتا تھا۔“ اس کے لہجے میں خود بخود مواحد کے لیے احترام در آیا تھا۔
”دیکھ لیا ہے تو پھر جاؤ اب!“ نویرا واسطی بے زاری سے گویا ہوئیں کہ خود پہ ٹکیں اپنے شوہر کی دہکتی نگاہیں انھیں جھلسا رہی تھیں۔۔۔ ابھی تو انھیں یہ محاذ بھی سر کرنا تھا۔
”میں تو چلی ہی جاؤں گی لیکن آپ ضرور سوچیے گا کہ یہ سب کر کے آپ کو کیا حاصل ہوا؟“ فاکہہ ان پہ سوچوں کے در وا کرنا چاہتی تھی۔
”تمھیں ہمیں یوں ذلیل کر کے کیا مل گیا؟“ نویرا واسطی نے درشتی سے اس کی بات کاٹی تھی۔
”اپنی ہی اولاد پر جان لیوا حملہ کروانے کے بعد بھی آپ مجھے ہی مورد الزام ٹھہرائیں گی؟“ اس کے لہجے میں بے بسی سی تھی۔
”فاکہہ! جاؤ یہاں سے۔۔۔۔ ہمیں ایسی اولاد نہیں چاہیے، جو اپنے ہی والدین کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔“ وہ کچھ سننے سمجھنے کو تیار ہی نہ تھیں۔
”پرسوں عدالت میں آپ کے کیس کی سنوائی کے دوران مجھے بھی طلب کیا گیا ہے تاکہ میں انھیں آگاہ کر سکوں کہ زیبی آپ کی ہی ایما پر الگ گاڑی میں سوار ہوئے اور آپ نے ہی انھیں اکیلے سفر کرنے پر اکسایا تھا لیکن میں یہ نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔ سو میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ آپ اقبال جرم کر لیں تاکہ میں اس اذیت سے بچ سکوں۔“ دکھ بھرے لہجے میں بولتی فاکہہ ایک بار پھر درخواست گزار ہوئی تھی۔
”میں نے کچھ نہیں کیا تو کس بات کا اعتراف کروں؟“ نویرا واسطی کے انکار پر فاکہہ کے چہرے کی رنگت متغیر ہوئی تھی۔
”میں چلتی ہوں لیکن میری باتوں پر غور ضرور کیجیے گا۔“ وہ مزید کسی بحث و مباحثہ میں پڑنے کی بجائے انھیں سوچ میں ڈوبا چھوڑ کر وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی۔
”تم ٹھیک ہو؟“وہ باہر احاطے میں آئی تو وہاں محو انتظار مواحد کی نگاہوں سے اس کے قدموں کی شکستگی مخفی نہ رہی تھی۔۔۔ فاکہہ نے خاموشی سے فقط اثبات میں سر ہلا دیا تو وہ بے ساختہ اسے خود سے لپٹا گیا تھا۔
”فکر نہ کرو۔۔۔۔ جو ہوگا، بہتر ہی ہوگا۔“ اس کی تسلی آج فاکہہ کے دل پہ مرہم نہ رکھ سکی۔۔۔ نجانے کیوں اس کا وجدان کَہ رہا تھا کہ اب جو ہوگا، وہ بہت لرزہ خیز ہونے والا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا جب اگلی صبح افلاک واسطی نے نویرا واسطی کو گلا دبا کر قتل کرنے کے بعد اپنا ہر جرم قبول کر لیا تھا۔۔۔۔ فاکہہ تو قدرت کے اس انصاف پر ہی انگشت بدنداں رہ گئی۔۔۔۔ وہ وقت اس کے لیے بہت کڑا تھا لیکن مواحد اور اس کے گھر والوں کے پرخلوص ساتھ نے اسے جلد ہی خود کو سنبھالنے میں خاصی مدد کی تھی۔۔۔ اسے رشتوں کی حلاوت کا اصل معنی اب جا کے سمجھ میں آیا تھا۔
__۔

Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,