Uncategorized

Ek Jot Jali Matwali Si by Saira Naz Last Episode 23 Online Reading

آسمان پہ شام اتری تو دن بھر بلندیوں کو چیرتے پنچھی، چہچہاتے ہوئے اپنے آشیانوں کو لوٹنے لگے تھے۔۔۔ آفتاب خاکوانی کا سارا خاندان بھی اس وقت ایک چھت تلے جمع تھا جہاں وہ مواحد اور فاکہہ کے ولیمے کی پر ضیافت تقریب کے بعد فراغت سے بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔ سیاہ رنگ کے شلوار سوٹ کے ساتھ گہرے بھورے رنگ کی چادر اپنے کندھوں کے گرد پھیلائے بیٹھا مواحد اور اس کے ساتھ، کتھئی رنگ کے سنہری کامدانی فراک کے اوپر عنابی رنگ کا دوپٹہ اوڑھے، براجمان فاکہہ، وہ دونوں ہی سب کی نگاہوں اور دعاؤں کا مرکز تھے۔
”فاکہہ! تمھارا یہ نکما شوہر جب میری گود میں سر رکھ کر تمھارے لیے روتا تھا تو میرا دل پوری شدت سے اس لڑکی سے ملنے کو چاہتا، جس نے اسے سر سے پاؤں تک بدل کر رکھ دیا تھا۔۔۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ ایسا بھی کیا خاص ہے؟ اس لڑکی میں کہ میرا بیٹا اپنی ماں کا بدلہ بھی بھول گیا اور پھر تم سے ملنے اور تمھیں جاننے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ تم سچ میں اس قابل ہو کہ تمھیں چاہا جائے۔۔۔ اتنا سب ہونے کے بعد بھی تم نے سب بھلا کر جس طرح اپنے آپ کو ہمارے خاندان کے مطابق ڈھالا ہے، وہ سچ میں قابلِ تحسین ہے۔۔۔ مجھے آج یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تم میرے بیٹے کی زندگی کا اب تک کا سب سے بہترین فیصلہ ہو۔“ وہ سب خوش گپیوں میں مصروف تھے، جب مرینہ خاکوانی نے اپنے ساتھ والے صوفے پر براجمان فاکہہ کا ہاتھ تھام کر ممتا بھرے لہجے میں کہتے، باقی سب کے ساتھ ان دونوں کو بھی حیران کیا تھا۔
”ماما! آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ یہ گھونچو پہلے سے ہی فاکہہ کو جانتا تھا؟“ موحد کے یوں بولنے پر جہاں مواحد کی محبت پاش نظروں کے حصار میں مقید فاکہہ کے ساتھ باقی سب ہنس دیے، وہیں مواحد نے بھی نگاہوں کا زاویہ بدل کر، خود کو دیے گئے اس خطاب کے لیے بڑے بھائی کو ایک شکوہ کناں نظر سے نوازا تھا۔
”اب ایسی بھی بات نہیں! میرے اچھے خاصے بھائی جمع دیور کو آپ ایسے بے تکے القابات سے نواز رہے ہیں۔“ نشرہ ہمیشہ کی طرح مواحد کی حمایت کو میدان میں اتری تھی۔
”ماما! آپ اپنی زندگی کے اس فیصلے کو کیا کہیں گی؟“ نشرہ کو کوئی جواب ملتا اس سے پہلے ہی مواحد کے موحد کی طرف اشارہ کر کے، جل کر کہنے پر وہ سب پھر سے ہنس دیے تھے۔
”شرم کرو! بڑا بھائی ہوں تمھارا۔“ موحد نے مصنوعی خفگی سے کہتے، اسے گھرکنا چاہا لیکن وہ بے نیازی سے کندھے اچکا گیا تھا۔
”بڑے بھائی کو بھی تو چھوٹے بھائی پہ جملے بازی کرتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے نا۔“ وہ اپنے بھائی کی بے انتہا عزت کرتا تھا لیکن کبھی کبھار وہ دونوں یوں ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچا کرتے تھے۔
”بس کرو تم لوگ! اب شروع مت ہو جانا۔۔۔ فاکہہ! ان کو چھوڑو اور مجھے بتاؤ کہ تم ہم سب سے جڑ کر کیسا محسوس کر رہی ہو؟“ مرینہ خاکوانی نے بات بڑھنے سے پہلے ہی انھیں ٹوک دیا تھا کہ وہ دونوں ایک بار اپنی لفظی گولہ باری سے اک دوجے کو لتاڑنا شروع کرتے تو پھر ہنستے ہوئے ان کی پسلیوں میں بل پڑ جانے تھے۔
”جیسا ایک گمشدہ سیارہ اپنے مدار میں آ کر محسوس کرتا ہے، میرے جذبات بھی بالکل ایسے ہی ہیں۔۔۔ آپ لوگوں سے مل کر یوں لگتا ہے، گویا میری بھٹکتی روح کو ایک منزل مل گئی ہو۔۔۔ اور اس کا سہرا بھی آپ سب کو ہی جاتا ہے۔۔۔ یہ آپ سب کی پرخلوص محبت ہی ہے جو مجھے کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیتی۔“ فاکہہ کے جذب سے کہنے پر وہ سب ہی مسکرا دیے۔۔۔ اس کے لفظ لفظ سے سچائی ٹپک رہی تھی۔
”ہماری محبت کہ آپ کے شوہر نامدار کی دیوانگی؟“ نشرہ نے نرم نگاہوں سے اپنے دل عزیز شوہر کو دیکھا جو آج ایک عرصہ بعد یوں مستی کے موڈ میں آیا تھا وگرنہ پچھلا کچھ عرصہ تو اس کی حد درجہ سنجیدگی بسا اوقات اسے بھی ہولا دیتی تھی۔
”جو بھی ہے لیکن مرینہ کی اس بات سے تو میں بھی اتفاق کرتا ہوں کہ یہ مواحد کی زندگی کا ایک عقلمندانہ فیصلہ ہے۔“ خاموشی سے مسکرا کر ان کی باتیں سنتے آفتاب خاکوانی نے بھی شگفتگی سے کہتے، اس ساری گفتگو میں حصہ لیا تھا۔
”بابا جان! آپ اکلوتا لگانا بھول گئے ہیں۔“ مواحد کی جتاتی نگاہوں کے جواب میں موحد نے ایک بار پھر ٹکڑا لگایا تھا۔
”فاکہہ! تمھیں ہمارے خاندان میں اب تک سب سے زیادہ اچھا کون لگا؟“ نشرہ نے اس کی بات پر مسکراتے ہوئے، اب فاکہہ کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔
”آپ سب ہی بہت اچھے ہیں لیکن اگر پہلے کی بات کریں تو مجھے آنٹی سے ملنے کا بہت اشتیاق رہا ہے۔۔۔۔ مواحد نے مجھے جب ان کی قوت گویائی کے متعلق بتایا تو میں نے ان کا درد اپنے دل میں محسوس کیا تھا۔۔۔ میں آپ کی تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہوں۔“ اس کے نادم لہجے پر وہ سب ہی بے آرام دکھائی دیے تھے۔
”میری جان! تمھاری یہ محبت سر آنکھوں پر لیکن ایسے نہیں کہتے۔۔۔۔ بیٹیاں تو دھونس جمانے کے لیے ہوتی ہیں، وہ یوں معافی مانگتی اچھی نہیں لگتیں۔“ مرینہ نے ان سب کے ہی جذبات کو زبان دی تھی۔
”آپ کی ماما بالکل ٹھیک کَہ رہی ہیں۔۔۔ماضی سے سبق سیکھنا اچھی بات ہے لیکن اس کو دل میں جگہ دینا ہرگز بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ جو انسان گزرے کل میں جیتا رہتا ہے، وہ کبھی زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتا سو بہتر ہے کہ آپ سب کچھ بھول کر اپنی آگے آنے والی زندگی پر توجہ دیں۔“ آفتاب خاکوانی نے بھی ہمیشہ کی طرح اپنی شریک حیات کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
”فاکہہ! ہمارے بابا جان سختی سے اس مقولے پر عمل پیرا ہیں کہ بیوی کبھی غلط نہیں ہوتی اور شوہر ہمیشہ بے چارہ ہی رہتا ہے سو آئندہ ان کے سامنے ان کی بیوی سے اختلاف کی کوشش بھی نہ کرنا۔“ موحد نے اس بار اپنے بابا کی ٹانگ کھینچی تو ان کی یہ خوب صورت سی محفل کشت زعفران بنی تھی۔
”خیر تو ہے جناب! آج بڑے موڈ میں لگ رہے ہیں۔“ باتوں کا یہ سلسلہ رات گئے تھما تو سب نے ہی اپنے اپنے کمرے کی راہ لی تھی۔۔۔ نشرہ بھی کپڑے بدل کر موحد کے ساتھ بستر پر ٹکتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔
”کیوں تمھیں اچھا نہیں لگا کیا؟“ موحد نے نچلا لب دبا کر مسکراہٹ ضبط کی تھی۔
”میری اتنی مجال کہ آپ کی کسی بات کو ناپسند کروں۔“ نشرہ جھٹ کورنش بجا لائی تھی۔
”آج ایک عرصہ بعد لگا ہے کہ دل پہ کوئی بوجھ نہیں ہے۔۔۔ مہران کے معاملے میں مواحد کی معاملہ فہمی نے میرے دل پہ دھری کئی بھاری سلیں سرکا دی ہیں۔۔۔ حمدہ اور رشدہ کے گھر والوں کو بھی آج ایک عرصہ بعد پرسکون دیکھ کر میں خود کو خاصا ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں۔۔۔ بس دل میں ایک ہی خلش ہے کہ کاش حمدہ یوں جذباتی فیصلہ نہ کرتی۔“ اس کی بات پر کھل کر مسکراتے موحد کے لہجے میں اپنی بات کے آخر میں اداسی گھلی تھی۔۔۔ مہران کے اقبال جرم کے بعد حمدہ کا خاندان بھی منظر عام پر آ گیا تھا اور آج ان دونوں کے ہی گھر والے مواحد کے ولیمہ میں مدعو تھے۔
”اسی لیے اس کی بیوی کے سامنے بھائی کی کھنچائی کر رہے تھے۔“ نشرہ جانتی تھی کہ کچھ قصے ان کہے ہی اچھے لگتے ہیں سو اس نے اپنی گفتگو کا محور مواحد کو ہی بننے دیا تھا۔
”اور وہ جو تمھارا دیور کر رہا تھا، وہ کیا تھا؟“ اس کا انداز سمجھتے موحد بھی اس کے ساتھ اس خاموش معاہدے میں شامل ہوا تھا۔
”وہ تو اس کی محبت تھی۔“ وہ اس کی بھرپور حمایت کر رہی تھی۔۔۔ اس کا مقصد موحد کو پرسکون کرنا تھا۔
”تو پھر میں بھی محبت ہی جتا رہا تھا۔“ وہ جتاتے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔
”ایسے جتاتے ہیں محبت؟“ نشرہ اپنی ہی کہی بات میں الجھی تھی۔
”تو پھر تم ہی سکھا دو کہ کیسے محبت کرتے ہیں؟“ موحد نے بوجھل لہجے میں کہتے، اسے اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔۔ بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا چاند ان کی محبت کی نرمی محسوس کرتے مسکرا دیا تھا۔
__۔


Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,