خودکشی کی کوئی خاص وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔”ہسپتال کے ایک مخصوص کمرے میں آمنے سامنے بیٹھے دو نفوس کے درمیان کسی اہم بلکہ سنگین معاملے پر بات چیت جاری تھی۔یہ جملہ کہنے والا شخص سفید ایپرن میں مقید تھا اور گلے میں سٹیتھوسکوپ پہنے ہوئے تھا۔چہرے پر سنجیدگی تھی۔حلیے سے واضح ہو رہا تھا کہ وہ معالج تھا۔
“معمہ بن گئی ہے اس لڑکے کی موت۔اتنی چھوٹی عمر میں یوں اونچائی سے کود کر جان دینے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے آخر!”معالج نے مزید وضاحت کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا۔
وہ دو نفوس اس وقت شہرِ قائد کے مرکز میں موجود نجی ہسپتال کے ایک آفس میں بیٹھے تھے جو انہی میں سے ایک شخص کا تھا جو کہ یقیناً ڈاکٹر تھا۔سامنے براجمان شخص نے سیاہ اور خاکی رنگ کی مخصوص وردی پہنی ہوئی تھی۔حلیے اور لباس سے پہچان ہو رہی تھی کہ وہ ایک تفتیشی افسر تھا سو یہ گفتگو معالج اور تفتیشی افسر کے درمیان جاری تھی۔
“بچے کے جسم پر کوئی نشان وغیرہ ملا؟”تفتیشی افسر نے پرسوچ لہجے میں پوچھا۔
وہ ابھی یہاں پہنچا تھا اور فی الحال لاش کا مشاہدہ نہیں کیا تھا تبھی مقابل سے معلومات لے رہا تھا۔یوں بھی لاش ابھی کچھ وقت پہلے ہی یہاں لائی گئی تھی اور لاش پہنچنے کے کچھ دیر بعد اسے اطلاع دی گئی تھی سو وہ اپنے اہم کام نمٹا کر یہاں پہنچا تھا۔البتہ پولیس کا محکمہ،ڈاکٹر کے عملے کے ہمراہ ابتدائی ضروری کارروائی مکمل کر چکا تھا اور یہ بیٹھک اسی کارروائی کے نتائج زیرِ بحث لانے کیلیے رکھی گئی تھی۔
“جی ہاں لڑکے کے بازوؤں اور پنڈلی پر زخموں کے نشانات تھے جیسے بلیڈ سے کاٹا گیا ہو اور ایک عجیب سی بات یہ ہے کہ اس کی کلائی پر اورکا کھدی ہوئی تھی۔”معالج نے یاد کر کے تفصیل بیان کی۔چہرے پر تعجب تھا۔
“مجھے لگتا ہے کہ لڑکا کسی لڑکی کے ساتھ انوالو ہوگا اور ان کے درمیان ہوئے کسی آپسی معاملے کی وجہ سے لڑکے نے یہ قدم اٹھایا ہوگا۔”اب انہوں نے کرسی سے ٹیک لگائی اور قیاس کے گھوڑے آگے کو دوڑائے۔
“لیکن بچہ چھوٹا تھا اور اس کے والدین کے مطابق وہ موبائل پر صرف گیمز وغیرہ ہی کھیلتا تھا۔”تفتیشی افسر نے معالج کے گھوڑے کو لگام لگائی۔
“اور اگر مان بھی لیا جائے کہ اس چھوٹے لڑکے کی کسی لڑکی سے دوستی تھی بھی تو غصے میں آکر بلیڈ سے خود کو کاٹنا اور بریک اپ ہونے پر چھت سے کودنا تو سمجھ آتا ہے لیکن کلائی پر اورکا کا ٹیٹو بنانے کا کیا مقصد بنتا ہے؟گرل فرینڈ انسان تھی کہ مچھلی!”تفتیشی افسر نے پوری بات کھول کر رکھ دی تھی۔موت کو خودکشی مانا بھی جاتا تو بھی اتنی عام خودکشی نہیں تھی یہ۔
“کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ڈاکٹر۔”اب کے اس کی آواز میں مزاح کا رنگ بھی تھا مگر آنکھوں میں سوچوں کا پہرہ تھا۔
To Download The Complete Novel Click On Next Page