یہ ایک اونچے اونچے پہاڑوں سے گھری وادی تھی جہاں ہر طرف ہریالی خوشنما پھول اور سر سبز درخت بہار دکھا رہے تھے مگر وادی کی فضا میں کچھ عجیب سا سکوت تھا جو ان تینوں کو محسوس ہو رہا تھا انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کے دل ڈوب رہے ہوں۔یہ تین دوست تھے۔ عادل صارم اور ندا۔ جو ناصرف بچپن کے دوست تھے بلکہ ایک ساتھ پڑھائی کرکے اب ایک بہت بڑے نیوز چینل میں ایک ساتھ کام کر رہے تھے اور چینل کے سب سے نڈر اور بہادر ورکر مانے جاتے تھے۔ان کے نیوز چینل کو کہیں سے خبر ملی تھی کہ بارڈر کے پاس کی ایک پہاڑی وادی میں کوئی عجیب سی دہشت پھیل گئی ہے۔ لوگ اپنا ہی گوشت نوچ نوچ کر کھانے لگتے تھے اور پھر غاٸب ہو جاتے تھے۔اور حیرت کی بات تو یہ تھی کہ ان کی لاشوں تک کا پتہ نہیں چلتا تھا تاکہ کوٸی جان پاتا کہ زندہ ہیں یا مر گٸے ہاں مگر کچھ دن بعد پہاڑی دراڑوں میں انسانی ہڈیوں کے بغیر ہاتھوں کے پنجر ضرور ملتے تھے۔شروع شروع میں کچھ لوگوں نے ان کا پیچھا کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ کیونکہ وہ اپنا زخمی وجود لے کے پہاڑوں میں جا کے غاٸب ہو جاتے تھے۔ خون کے دھبے پہاڑوں کے درمیان جا کر ختم ہو جاتے تھے اور باریک باریک سی دراڑوں کے علاوہ کچھ نہیں ملتا تھا ظاہر ہے اتنا بڑا انسان چھوٹی سی دراڑوں میں تو سما نہیں سکتا تھا مگر وہ کہاں جاتے تھے یہ کوئی نہیں جان پایا تھا۔حد تو یہ کہ یہ کوئی وائرس بھی نہیں تھا کیونکہ اگر یہ وائرس ہوتا تو ایک دوسرے لگتا مگر ایسا نہیں تھا۔شروع کی کچھ اموات تو پراسرار حالات میں ہوٸی تھیں اور لوگوں نے کسی آدم خور درندے یا بلا کے بارے میں سوچ کر پہاڑیوں کی طرف جاناچھوڑ دیا تھا اور اپنے پیاروں کی ہڈیاں دفنا کر رو دھو کر چپ ہوگٸے۔مگر ایک رات اچانک تمام غاٸب ہونے والوں کے گھروں میں بیک وقت دستک ہوٸی اور ان کی آوازیں آٸی مگر جیسے ہی دروازے کھلے ایک دل دہلانے والا منظر سامنے تھا، باہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مکمل پڑھنے کیلئے اگلے پیج پر کلک کریں
Khoni Panje By Sonia Hassan Complete PDF Download Free
