ہسپتال پہنچتے ہی احتشام کو ایمرجنسی میں لے جایا جا چکا تھا اور باقی تینوں متفکر سے کوریڈور میں موجود تھے۔
احتشام کو ٹب سے نکالنے کے دوران تینوں کے کپڑوں پر اس خون آلودہ پانی کے چھینٹے آئے تھے لیکن سب سے زیادہ ولید کے کپڑے متاثر ہوئے کیونکہ وہ پاگل اس کا ہاتھ خود میں بھینچ کر خون روکنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ ہاں وہ اپنے دوست کو ایسے دیکھ خوف سے پاگل ہی ہوگیا تھا۔
احتشام کو فوری خون کی ضرورت تھی۔ تینوں نے اپنا خون دے دیا تھا اور اب ڈاکٹر کی جانب سے کسی تسلی بخش خبر کے منتظر تھے۔
”اس کے گھر پر اطلاع کر دیں کیا؟“ زین نے حسن سے پوچھا۔
کوئی جواب دینے کے بجائے حسن نے اپنے بائیں طرف بیٹھے ولید کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ گویا پوچھ رہا ہو کہ بتاؤ ولید اطلاع کر دیں کیا؟
”نہیں، ابھی نہیں، پہلے اسے ہوش آجانے دو۔“ ولید نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”لیکن یار اگر اسے کچھ ہو۔۔۔۔“
”کچھ نہیں ہوگا اسے۔۔۔“ زین کا خدشہ ابھی پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ ولید نے سختی سے ٹوکا۔
حسن نے زین کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ کیونکہ دونوں جانتے تھے کہ ولید کو احتشام کتنا عزیز ہے۔
”وہ بچپن سے میرے ساتھ ہے، اور اس نے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا، وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جائے گا۔“ مزید کہتے ہوئے لہجے کی سختی زائل ہوئی اور آواز کانپ گئی۔ دونوں کو اس کی حالت کا احساس تھا۔
حسن تو پہلے ہی دائیں طرف بیٹھا تھا۔ زین بھی اٹھ کر اس کے بائیں طرف آگیا۔ دونوں اسے حوصلہ دینے لگے۔
”تو ٹھیک کہہ رہا ہے، احتشام کو کچھ نہیں ہوگا۔“ حسن نے تصدیق کی۔
”ہاں ابھی دیکھنا تھوڑی دیر تک اِس شامی کباب کو ہوش آجائے گا، اور یہ پھر سے کلاس بنک کرنے کا کوئی پلان سوچے بیٹھا ہوگا۔“ زین نے بھی ہلکے پھلکے انداز میں احتشام کی چڑ یاد دلاتے ہوئے تائید کی۔ وہ کچھ نہ بولا۔
”اچھا چل آج موقع ہے، آج تو تفصیل سے بتا کہ تم دونوں کی دوستی ہوئی کیسے تھی؟“ حسن نے اس کا دھیان بھٹکانا چاہا۔
”ہاں، ہم یہ تو جانتے ہیں کہ تم دونوں بچپن کے دوست ہو، لیکن اس دوستی کی شروعات کب اور کہاں ہوئی تھی؟“ زین نے بھی دلچسپی لیتے ہوئے اسے بولنے پر اکسایا۔
ان کا پینترا کام کر گیا۔ اور ایک گہری سانس کھینچ کر ولید گویا ہوا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭