دن گزرنے لگے۔ میں حسب عادت الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتا تھا لیکن احتشام مجھے زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹ لیتا تھا۔
ایک بار وہ پڑھائی کے لیے مجھے اپنے گھر لے گیا۔ ہمارے گھر ایک ہی علاقے میں تھے لیکن احتشام کا گھر خاصے ماڈرن طرز پر بنا ہوا تھا جو ان کی مستحکم معاشی حالت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
وہاں اس نے اپنی امی سے ملايا، وہ بھی بہت پیار سے ملیں، اور اس کے دونوں بڑے بھائی بھی اچھے تھے۔ بعد میں اس کے ابو سے بھی ملاقات ہوئی اور وہ بھی اچھے سے ملے۔
وہ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر والوں کا لاڈلا تھا۔ تب ہی وہ اپنے کسی نا کسی دوست کو گھر لے آتا تھا اور کوئی برا نہیں مانتا تھا۔
لیکن اس کے اسکول کے دوستوں کو میری آمد مسلسل ناگوار گزر رہی تھی۔ ان کے چہرے پر بے زاری صاف نظر آتی تھی۔ یہ بات میری سیلف رسپیکٹ ہرٹ کر رہی تھی کہ میں ان لوگوں پر زبردستی مسلط ہوں۔ تب ہی ایک دن میں نے ہمت کر کے احتشام سے کہہ دیا۔
”تم مجھے اپنے ساتھ مت رکھا کرو احتشام، یہ تمہارے دوستوں کو اچھا نہیں لگتا۔“
”لیکن مجھے تو اچھا لگتا ہے۔“ جھٹ جواب ملا۔
”ہاں لیکن میری وجہ سے ان سے تمہاری دوستی خراب ہو سکتی ہے۔“ میں نے خدشہ ظاہر کیا۔
”امی کہتی ہیں کہ ایک دوست اپنے دوست کے دوست سے کبھی جیلس نہیں ہوتا، اور جو ہوتا ہے وہ ہمارا دوست نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔اگر وہ لوگ میرے سچے دوست ہوں گے تو تمھیں بھی ایکسیپٹ کر لیں گے، تم ان کی فکر مت کرو۔“ وہ بہت آرام سے کہہ گیا، اور میں اسے دیکھتا رہ گیا۔
”اور تم میرے واحد دوست ہو جس کی امی نے بھی تعریف کی ہے، ورنہ انہیں میرے دوست خاص پسند نہیں آتے، اسی لیے اب اگر میں نے تمھیں چھوڑا تو امی مجھے نہیں چھوڑیں گی۔“ اس نے ہنستے ہوئے بات ہوا میں اڑا دی۔
اور واقعی وہ سچ کہہ رہا تھا۔ اس کی امی کا رویہ میری چچی سے زیادہ شفیق تھا کہ مجھے اپنی ماں کی یاد آجاتی تھیں۔ اور وہ کسی پر زیادہ دھیان نہیں دیتا تھا بس اپنی دھن میں رہتا تھا۔ جب میری وجہ سے اس کے دوست کٹنے لگے اس نے انہیں نہیں روکا، لیکن نہ جانے کیوں مجھے کبھی جانے نہیں دیا؟
یوں ہی وقت گزرتا گیا۔
ہم دونوں کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔ بلکہ اب تو میں بھی اس کے ساتھ شرارتیں کرنے لگا تھا۔ اگر میں کہوں کہ مجھے ہنس کر جینا سکھانے والا، خود اعتمادی دینے والا احتشام تھا، تو یہ غلط نہ ہوگا۔
اب ہم بوائز کالج میں آچکے تھے۔ اپنی چلبلی فطرت کے چلتے احتشام نے بہت جلد یہاں بھی ڈھیر سارے نئے دوست بنائے لیکن وہ زیادہ عرصہ ہمارے ساتھ جڑے نہ رہ سکے۔ مجھے احتشام کی دوستیوں پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ وہ خود ہی دوست بناتا تھا، اور خود ہی چھوڑ دیتا تھا۔ میرے لئے بس اس کا ساتھ کافی تھا۔
کالج کے بعد وقت آیا یونیورسٹی جانے کا۔ میں ہمیشہ سے کراچی کی ایک نامور یونیورسیٹی میں پڑھنا چاہتا تھا لیکن وہ مہنگی تھی۔ چاچو نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اتنا خرچہ نہیں اٹھائیں گے۔ اسی لیے میں نے وہاں اسکالرشپ اپلائی کی۔
احتشام نے بھی اس دوران کہیں اور ایڈمیشن نہ لیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر میری اسکالرشپ منظور ہوگئی تو وہ بھی میرے ساتھ وہیں ایڈمیشن لے گا۔
خوش قسمتی سے مجھے اسکالرشپ مل گئی اور پھر اس طرح ہم دونوں چار سالہ ڈگری کے لیے کراچی آگئے۔ جہاں پہلے سال میں ہی ہمیں تم دونوں بھی مل گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭