احتشام اور ولید داخلے کی ضروری کارروائی مکمل کرنے کے لیے یونیورسٹی آئے ہوئے تھے۔ اور اب کام نمٹا کر واپسی جا رہے تھے۔
”یونیورسٹی اچھی لگ رہی ہے ناں؟“ ولید نے ارد گرد کا جائزہ لیتے ہوئے تجزیہ کیا جو احتشام کے ساتھ چل رہا تھا۔
”مجھے یہاں کی سب سے اچھی بات یہاں کی لائبریری لگی۔“ ولید نے مزید کہا۔
”اور مجھے یہاں کی سب سے اچھی بات لگی کہ یہاں لڑکیاں بھی ہیں، ورنہ پہلے بوائز اسکول اور پھر بوائز کالج میں لڑکے ہی لڑکے دیکھ کر اپنی شکل سے بھی دل اوب ہوگیا تھا۔“ احتشام نے بھی اپنی رائے دی۔ ولید اسے گھورنے لگا۔
”ہم یہاں پڑھ کر ڈگری لینے آئے ہیں۔“ ولید نے یاد دلایا۔
”ڈگری تو سب ہی لے کر نکلتے ہیں، میں ڈگری اور دلہن دونوں لے کر جاؤں گا۔“ اس نے باز نہ آتے ہوئے دائیں آنکھ دبائی۔ ولید بے بسی سے سر ہلا کر رہ گیا۔
دونوں باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ اچانک کوئی لڑکا آندھی طوفان کی مانند بھاگتا ہوا برابر سے گزرا جس کا بیگ ولید کے کندھے سے ٹکراتا ہوا گیا۔
”ابے اوہ۔۔۔اندھا ہے کیا؟“ احتشام بلند آواز چلایا۔
”ہاں ہوں، تو آنکھیں کھول کر چل لے۔“ اس نے بھی پلٹ کر ڈھیٹائی سے جواب دیا اور چلتا بنا۔
”اس کی تو۔۔۔۔“
”شامی چھوڑ یار۔۔۔“ ولید نے فوری اسے روک لیا جو لڑنے کے لیے اس کے پیچھے جا رہا تھا۔
یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد دونوں اپنی رہائش گاہ کی تلاش میں نکل گئے جو ایک بوائز ہاسٹل تھا۔
بنیادی طور پر یہ ایک تین منزلہ گھر تھا جسے ہاسٹل کی شکل دے دی گئی تھی۔ احتشام کے بڑے بھائی کے کسی جاننے والے کے توسط سے دونوں یہاں آئے تھے۔
”یہ دیکھیں۔۔۔۔یہ ہے آپ لوگوں کا کمرہ۔۔۔“ آدمی نے دروازہ کھول کر اندر جانے کا اشارہ کیا۔
احتشام اور ولید اندر آ کر کمرے کا جائزہ لینے لگے۔ یہ ایک درمیانہ کمرہ تھا جس میں چار سنگل بیڈ موجود تھے۔ دو بیڈ دائیں طرف تھے اور دو بیڈ بائیں طرف۔۔۔۔
”یہاں ایک لڑکا اور رہ رہا ہے، دو دن پہلے ہی شفٹ ہوا ہے، یہ اس کا بیڈ ہے۔“ آدمی نے ایک بیڈ کی جانب اشارہ کیا جس کے ساتھ کچھ سفری بیگ وغیرہ بھی رکھے ہوئے تھے۔
”مطلب یہاں تین بیڈ بکڈ ہیں، بس وہ ایک بیڈ خالی ہے؟“ ولید نے نتیجہ نکال کر تائید چاہی۔
”نہیں، وہ بیڈ بھی بک ہوگیا ہے، وہ لڑکا بھی شاید آج آجائے گا۔“ آدمی نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بتایا۔
پھر آدمی وہاں سے چلا گیا۔ احتشام سستانے کے لیے بیڈ پر گر گیا اور ولید اپنے بیگ سے سامان نکالنے لگا۔ تب ہی کمرے کا دروازہ کھلا۔ ان کی نظر آنے والے پر گئی اور آنے والا بھی انہیں دیکھ پل بھر کو چونک گیا۔
”اوہ ہو۔۔۔۔تو یہ اندھا ہمارا روم میٹ ہے؟“ احتشام دلچسپی سے کہتا اٹھ بیٹھا۔
وہ لڑکا خود کو کمپوز کرتا اندر آیا۔ یہ وہ ہی تھا جو یونیورسٹی میں ان سے ٹکرایا تھا۔
”ولی۔۔۔ذرا اس اندھے کو ہاتھ پکڑ کر اس کے بیڈ تک تو پہنچا دے۔“ احتشام اسے زچ کرنے سے باز نہ آیا۔
وہ لڑکا چپ چاپ آ کر اپنے بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے بیگ سے کتاب نکال کر بیگ کنارے رکھا اور پیچھے ٹیک لگا کر پڑھنے لگا۔
”ارے واہ۔۔۔کیا جدید دور آگیا ہے شامی، اب اندھے لوگ بھی کتاب پڑھنے لگے ہیں۔“ ولید کو بھی مستی سوجھی۔
اس وقت تو کسی بڑے جھگڑے کے پیش نظر اس نے احتشام کو روک لیا تھا لیکن اب اس نے بھی موقع نہ گنوایا۔ اور احتشام کے ساتھ اسے تنگ کرنے لگا۔ لیکن وہ لڑکا بھی ڈھیٹائی سے ایسے نظر انداز کرتا رہا جیسے بہرہ ہو۔
تب ہی دوبارہ کمرے کا دروازہ کھلا۔ تینوں کی گردن بیک وقت اس طرف گھوم کر آنے والے کو نروس کر گئی۔
”السلام علیکم۔۔۔“ لڑکا مسکراتے ہوئے سلام کرتا اندر آیا۔
”وعلیکم السلام۔۔“ تینوں نے جواب دے دیا۔
”میں آپ لوگوں کا نیا روم میٹ ہوں۔۔۔۔زین۔۔۔۔۔زین شمسی۔۔۔“ اس نے خود ہی اپنا تعارف کرایا۔
”میں ولید رحمٰن اور یہ میرا دوست احتشام علی۔۔۔۔“ اس نے بھی تعارف دیا۔
”اور یہ صاحب اندھے، گونگے اور بہرے ہیں۔“ احتشام نے اس لڑکے کی جانب اشارہ کیا۔
”سچ میں؟“ زین نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”گونگا ہونا فضول گوئی سے تو بہتر ہی ہے۔“ بلآخر اس نے طنزیہ انداز میں لب کشائی کی۔
”ارے۔۔۔۔گونگا بولا۔۔۔۔۔“ احتشام نے مصنوعی خوشگوار حیرت سے ولید کو دیکھا۔ مطلب اس نے ٹانگ کھینچنے کا یہ موقع بھی نہ چھوڑا۔
”لگتا ہے آپ تینوں ہی دوست ہیں؟“ زین نے ان کی نوک جھونک دیکھ مسکراتے ہوئے اندازہ لگایا۔
”فی الحال تو صرف ہم دونوں دوست ہیں۔“ احتشام نے اپنے اور ولید کی جانب اشارہ کیا۔ زین سمجھ گیا کہ وہ لڑکا ان کا دوست نہیں ہے۔
”اوہ۔۔۔۔تو کیا میں بھی آپ لوگوں کا دوست بن سکتا ہوں؟“ اس نے بلاجھجھک پوچھ لیا۔
”کیوں نہیں؟“ احتشام نے فوری ہاتھ بڑھایا جسے زین نے گرم جوشی سے تھام لیا۔ پھر اس نے ولید سے بھی ہاتھ ملايا۔
جب کہ اس لڑکے کا سرد رویہ دیکھ اس کی طرف جانے کی ہمت نہ ہوئی۔