“یہ تمہارے ان ہاتھوں کے لئے جنہوں نے مجھے کبھی پانی نہیں پلایا۔۔۔” اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی یا سمجھتی وہ اس کے ہاتھ تھامتا گجرے پہنانے لگا۔۔۔ زرشہ کے دل کی دھڑکن ساکت ہوئی تھی۔۔۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ کھینچ سکی جسے وہ بہت استحقاق سے تھامے نرمی سے گجرے اس کی کلائیوں میں پہنا رہا تھا۔۔”شش۔۔ شہرام۔۔۔ تم کون سے دو نمبر ناولز پڑھ کر یہ گھٹیا رومینس کے طریقے ڈھونڈ کر لاتے ہو۔۔۔۔” گجرے پہنا کر اس کے ہاتھ پر اپنے لب رکھتے اس نے زرشہ کا ہاتھ چھوڑا تو وہ جیسے ایکدم ہوش کی دنیا میں آئی تھی۔۔۔ بمشکل اپنی اتھل پتھل سانسوں کو قابو کرتے اس نے تیز لہجے میں اس کے جذبات کی نفی کرنا چاہی لیکن نہ جانے کیوں لہجے نے زبان کا ساتھ نہ دیا۔۔۔ “تم نے میرا رومینس ابھی دیکھا ہی کہاں ہے میری پیاری بیوی۔۔۔ یہ تو بس محبت کا چھوٹا سا اظہار ہے۔۔ جس پر تم اس قدر لال گلابی ہو رہی ہو۔۔۔۔” اس کے چہرے کی جانب دیکھتا وہ محظوظ ہوا جو واقعی اس وقت شہرام کی اس حرکت پر سرخ پڑ رہا تھا۔۔۔ اور اس کے دل کا حال عیاں کرنے کے درپے تھا۔۔۔”تم یہ سب ڈرامے بازیاں بند نہیں کر سکتے ہو؟ عجیب سڑک چھاپ قسم کے عاشق بنے گھومتے رہتے ہو۔۔۔” وہ بیڈ چھوڑتا اٹھا تو اس کی سانس میں سانس آئی تھی۔۔ اب کی بار اس نے اپنے لہجے کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پا لیا تھا اور مصنوعی غصہ دکھانے میں کامیاب رہی تھی۔۔ جبکہ شہرام اس کی باتوں کو نظر انداز کرتا ایک بار پھر الماری کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
مکمل ناول پڑھنے کیلئے اگلے پیج پر کلک کریں