”نہیں اللّہ نہ کرے کوئی حادثہ اب ہو ہمارے ساتھ ۔۔آپ فکر نہ کریں۔۔یہ میرا محلہ ہے۔۔سب جانتے ہیں مجھے ۔۔میرا بچپن گزرا ہے یہاں ۔۔مجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا ۔۔آپ جائیں ۔۔میں محفوظ ہوں یہاں ۔۔۔میں خود چلی جاؤں گی ۔۔ایسا ہی کچھ کہا تھا نا تم نے؟؟؟“اس نے لب بھینچ کر جبڑا کسے طنز کے تیر برسائے تھے ۔
”دیکھو یہ تھے تمہارے وہ جاہل محلے والے ۔۔جو تمہیں جانتے تھے جن میں تمہارا بچپن گزرا تھا ۔جہاں تم محفوظ تھی ۔۔ اور کیا کہا تھا تم نے اللّہ نہ کرے اب کوئی حادثہ ہو۔۔اس سے بڑا اور حادثہ کیا ہوگا ۔۔تم حادثاتی طور پہ شامل کر دی گئی ہو میری زندگی میں ۔۔۔ان پاگلوں نے پکڑ کر نکاح کرا دیا ہے ۔۔“وہ ضبط کھو رہا تھا ۔۔سارا نزول اس پر گرا رہا تھا ۔۔اس نے پشیمان ہو سر اٹھایا ۔۔وہ کلستے ہوئے پیشانی مسل رہا تھا ۔۔اس کا اضطراب واضح بیان کر رہا تھا ۔۔وہ کتنی بڑی پریشان سے نپٹنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
”کیا خطا کی میں نے ہاں۔۔ تمہیں ہمدردی کی بنیاد پر یہاں تک چھوڑنے آگیا ۔۔یہ جرم تھا۔اس کی سزا ملی مجھے۔۔۔۔۔“
وہ بولا اور اچانک زور دار طریقے سے کار پر لات ماری وہ اچھل پڑی۔ زرد و فق چہرا اب ڈر و خوف کی زد میں آگیا۔اس ویران فضا میں بلند ہوتی اس کی آواز دور تک گونجی۔وہ طیش آور ہو کر چلایا تھا ۔چہرے پر ہلکورے بھرتی زلت و خواری کی علامتیں اس کی بے بسی کی گواہ تھیں ۔۔۔گھبراہٹ کے آثار آنکھوں میں کرب بن کر اترے شانی یک دم اس کے عین سامنے آیا تھا اس بے وقعت سی لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہوا تھا ۔۔فاریہ کا دل بند ہونے لگا ۔۔گلے میں دم ٹوٹنے لگا۔۔۔شانے نے لب بھینچے بہت کچھ ضبط کیا چہرے پر سرخی کے آثار چھلک پڑے ۔۔۔
”تم جانتی نہیں ہو یہ جو کچھ ہوا ہے نا یہ سہی نہیں ہوا ۔میرے گھر والوں کو اس بات کا پتا چلا تو پتا نہیں کیا ہوگا۔۔۔۔ میں اپنے گھر میں تیسرے نمبر کا بیٹا ہوں۔۔مجھ سے بڑے دو بیٹھے ہیں ۔۔دادو کو بتاتا بھی ہوں تو پتا نہیں وہ سمجھیں گے میری بات یا نہیں ۔۔سب کہیں گے ذمان اور ذکاء سے پہلے میں نے شادی کر لی۔۔وجہ میں بتا نہیں سکتا آج ہمارے ساتھ کیا کچھ ہوا ہے۔۔۔ میری سمجھ بوجھ سب ختم ہو رہی ہے ۔۔۔ابھی نہ میری پڑھائی مکمل ہوئی ہے نہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوا ہوں۔۔۔مجھے تو ابھی وہم و گمان بھی نہیں تھا شادی کا۔۔لے دے کے کرا دیا زبردستی نکاح ۔۔۔“مصیبت زدگی کے عالم میں شانی نے چکراتا سر ہاتھوں میں تھاما ۔۔۔اور فاریہ کے دل میں اس کی ہر اک بات سے درد سا اٹھ رہا تھا۔۔۔؟ اس کے ساتھ کتنی زیادتی ہو گئی تھی ۔
”اور میرے دادو ۔۔۔وہ تو ۔۔۔“
وہ رکا، پھر سنبھلا ۔۔۔۔
” دادو مُجھے جان سے نہیں مارے گے۔۔۔گھر سے بھی نہیں نکالے گے۔۔۔نہیں معلوم کیا کرے گے میرے ساتھ۔۔۔۔“
شانی کا لہجہ بکھر گیا تھا۔۔وہ رو دینے کے قریب تھا خشک ہوتے حلق میں کچھ اٹکا تھا۔۔ بےبسی سی بےبسی تھی۔فاریہ کا دل تکلیف سے دوچار ہونے لگا ۔اس نے آنکھیں جھکیں اور قدامت سے زمین پر گاڑ دیں۔۔۔خاموش آنسو رواں ہوگئے ۔۔۔۔
کچھ پل خاموشی سے سرک گئے ۔۔۔
شانی کو اسکی ایسی خاموشی کھل گئی تھی۔ پر اس کے بس میں کیا تھا کچھ بھی نہیں ۔۔۔ سختی سے مٹھیاں مسلیں ،لہجہ ترش ہوا۔۔۔۔
”اب تم ایسے خاموش کیوں ہو۔۔۔۔ میں تم سے بات کررہا ہوں۔۔۔۔ کچھ تو بولو ۔۔کچھ علم بھی ہے تمہیں کیا کر دیا گیا ہے ہمارے ساتھ ۔۔نکاح ہو گیا ہے ہمارا ۔۔کیا کریں اب ۔۔؟ کہاں لے جاؤں میں تمہیں ۔۔۔“
شانی نے بنا کسی لحاظ کے تندی سے اسکے سامنے ہاتھ لہرایا ۔۔۔مگر اس بے آسرا و بے سہارا نسوانی سراپے پر وہشتوں کا لرزاں طاری رہا ۔۔۔وہ تو اف تک نہ کر پا رہی تھی ۔۔۔۔
”تمہاری اس خاموشی سے سب کچھ بدل نہیں جائے گا۔۔نکاح کرا دیا گیا ہے ہمارا۔۔اس کا مطلب سمجھتی بھی ہو۔۔۔۔“
آپے سے باہر ہو وہ اچانک جبڑا کسے غرایا۔۔ تلخ آواز خاموش رات کے فضا میں پھر مرتعش ہوئی تھی ۔دور کہیں پھر سے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دینے لگی تھی۔۔۔
” تم کون ہو ؟کہاں سے ہو ؟ تمہاری اصل پہچان میں نہیں جانتا ۔ میں کون ہوں کہاں سے ہوں تم نہیں جانتی۔۔ہمارے لئے فیملی بیک گراؤنڈ بہت اہمیت رکھتا ہے۔اور معاف کرنا جس طرح کے بیک گراؤنڈ سے تم منسلک ہو اسے دقیانوسی مینٹیلیٹی بیک گراؤنڈ کے نام سے جانا جائے تو زیادہ اچھا ہے ۔۔ارے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں تو تمہارا نام تک نہیں جانتا اور ان کم ظرف لوگوں نے پکڑ کر نکاح کروا دیا۔۔ “اس کا بس نہیں چل رہا تھا جس محلے میں کھڑا ہے اسی میں آگ لگا دے ۔
” حیرت ہو رہی ہے مجھے کہ اس گھٹیا سوچ کے لوگ آج کے زمانے میں بھی ہیں۔۔۔وہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھے ۔” وہ کچھ وقت کے لئے رکا کمر پر ہاتھ دھرے مڑا ۔۔مٹھی مسلی اور پھر اسی تیزی سے واپس پلٹا ۔۔۔