ذکاء کچھ دیر قبل ہی نکلا تھا میر ولا سے ۔۔رات کے تین بجے تھے ۔۔ اس کی فلائٹ ایک گھنٹے بعد تھی۔۔اور اس کی وجہ سے نایاب بھی ساری رات کی جاگی ہوئی تھی کہ کہیں اسے کوئی شے اچانک ضرورت پڑتی تو وہ پریشان نہ ہو جائے ۔۔اس لئے وہ جاگتی رہی تھی ۔۔ اور ہال میں ہی موجود بھی۔۔۔ شال کو اپنے گرد پھیلائے بیٹھی وہ سرد رات میں بنا اپنی پرواہ کے محض اس کی فکر میں اس ٹھنڈ میں باہر رہی تھی۔۔۔ وہ اسی لیئے وہاں پہلے سے موجود رہنا چاہتی تھی کہ رات کے پہر وہ کسی کا دروازہ تو کھٹکھٹاتا ہی نہیں ۔۔خود ہی اپنی مدد آپ کے تحت باہر آتا تو نایاب اس کی مدد کر دیتی ۔۔مگر وہ جب باہر آیا تو کچھ پریشان تھا ۔۔اور بڑی عجلت میں بھی۔۔اپنا سوٹ کیس گھسیٹ کر آتے ہوئے اس کی نظر فون کی جلتی اسکرین پر تھی۔۔جس پر تیزی سے مسیج ٹائپ کرتے ہوئے وہ کچھ غیر آرام دہ لگ رہا تھا اور متفکر سا سیدھا باہر کی سمت بڑھ رہا تھا ۔ سکڑ کر بیٹھی صوفے کی ہتھی پر سر گرائے نیم غنودگی میں اتری نایاب نے قدموں کی چاپ پر پٹ سے آنکھیں کھول دی تھیں ۔۔وہ کچھ دیر کے لئے واقعی میں سو گئی تھی۔۔۔سر اٹھا کر دیکھا تو وہ تیزی سے چلتا اسی سمت آ رہا تھا ۔۔
وہ ایک دم سے پسارے پاؤں صوفے سے اتار کر کھڑی ہوئی ۔۔اپنے گرد شال کچھ اور طریقے سے لپیٹ کر اس کی منتظر ہوئی۔۔وہ فون پر مسیج سینڈ کر ہٹا ہی تھا کہ ایک کال آئی تھی اسے۔۔وہ رک کر سوٹ کیس چھوڑ ذرا سائیڈ پر گیا ۔۔
”جی میں نے ہی بک کی تھی ۔۔مگر ابھی مجھے پہلے ائیرپورٹ نہیں ایک اور جگہ جانا ہے ۔۔اس کے بعد ائیر پورٹ نکلنا ہے۔۔اور جلدی کرنا ہے کیونکہ میرے پاس ٹائم نہیں ہے ۔۔مجھے پہلے کسی سے ملنے جانا ہے ۔۔“دوسری جانب فون پر کون تھا وہ نہیں جانتی تھی ۔مگر ذکاء کس سے ملنے کی بات کر رہا تھا ۔۔وہ بھی اتنی رات گئے ۔۔یہ بات قابلِ غور تھی ۔اسے تو سیدھا ائیرپورٹ ہی جانا چاہیے تھا ۔۔نایاب کا ماتھا ٹھنکا تھا ۔۔دل میں کچھ اداسیوں کی گرہیں پڑیں ۔۔ کہیں وہ اس سے ملنے تو ۔۔۔۔؟ آگے اس نے جھرجھری لے کر سر جھٹک دیا تھا ۔۔وہ بہت زیادہ دل پر لینے لگی تھی باتیں ۔۔اگر جا بھی رہا تھا تو کیا فرق پڑتا تھا ۔ وہ چاہتا تھا اسے۔۔۔اور نایاب کو وہ لڑکی بڑی قسمت کی دھنی لگتی تھی ۔۔جس کی محبت میں ذکاء جیسا پریکٹیکل انسان ڈوبا ہوا تھا ۔۔نایاب کے لئے تو وہ خوش نصیب لڑکی ہی تھی۔۔جسے ذکاء جیسے بے نیاز کی توجہ اتنی وافر مقدار میں ملتی تھی۔۔۔
وہ بات کر کے فون کاٹ کر پھر سے سوٹ کیس کھینچتا ہوا آیا تو اسے راستے میں کھڑا دیکھ ٹھہرا ۔۔اس دوران اس کی ایک بار بھی توجہ اس پر نہیں گئی تھی۔۔جو اس کی توجہ کے لئے وہاں اتنی دیر سے منتظر تھی۔۔۔
”تم سوئی نہیں ابھی تک؟؟“
اس نے بھنویں میچ کر چوڑی کلائی موڑ کر گھڑی میں وقت دیکھا تھا ۔۔تین بج رہے تھے ۔۔ذکاء کو حیرت ہوئی تھی ۔۔
”جی وہ…“ وہ جھجکتے ہوئے رکی۔۔کیا اس کا یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ وہ اس کے لئے جاگ رہی تھی ۔۔نہیں بالکل نہیں ۔۔
”وہ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی تو یہاں ٹہلنے آ گئی تھی۔۔“اس نے برملا جواب گھڑا تھا ۔۔ذکاء کی پیشانی کے بل ذرا کم ہوئے ۔۔
”خیریت تو ہے۔۔؟“وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔۔یہ انداز اسے بھایا تھا ۔۔نایاب کو اس کی یہ سرسری سی فکر بھی جب محسوس ہوئی تو اسے لگا اس کا دل مہک اٹھا ہے۔۔
”جی بس یونہی ۔۔“نایاب کو سمجھ نہ آیا وہ چہرے کے نکھرتے رنگ کیسے چھپائے۔۔۔
”ہوں۔۔۔! ٹائم سے سو جایا کرو ۔۔اس طرح دیر تک جاگنا اچھی بات نہیں ۔۔ “وہ سرد تاثرات سے ہدایت کرتا باہر کی سمت چل پڑا تھا ۔۔شاید اس کے فون پر پھر کسی کی کال آ رہی تھی ۔۔فون کان سے لگاتے ہوئے وہ میر ولا کا خارجی دروازہ عبور کر گیا تھا ۔۔نایاب کا دل پھر سے اداس ہو گیا ۔۔جو کِھلتا ہی بس مختصر عرصے کے لیئے تھا ۔۔۔ وہ اس کے قدموں کے نشان دیکھتی رہی ۔۔وہ چلا گیا تھا ۔۔ وہ مایوسی سے سر جھٹک کر تہجد پڑھنے کے لئے پلٹ گئی ۔۔ آج تو اسے ویسے بھی ذکاء کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگنی تھیں ۔۔وہ اکثر اوقات سفروں میں رہتا تھا ۔۔اس نے وضو کر کے تہجّد پڑھی تو دعاؤں میں بس ذکاء کے لئے ہی مانگا تھا ۔۔اس کی خوشیاں ۔۔اس کی سلامتی اس کی کامیابی ۔۔نیز ہر وہ شے جس کی خواہش ایک خوشحال طرزِ زندگی کے لئے کی جا سکتی ہو ۔۔۔اور جب اپنے لیئے مانگنے کی باری آئی تو بس ہاتھوں کو تکتی رہی ۔
اپنے لیئے کیا مانگے ۔۔؟؟ اس نے سوچا ۔
شاید ہمت اور حوصلہ ۔۔۔صبر اور استقامت ۔۔
دل سے جواب آیا تھا ۔۔
کل دوپہر اس کے لئے بڑے ماموں کے دوست بمعہ فیملی تشریف لا رہے تھے ۔۔ سننے میں آیا تھا لڑکا باہر سے آ گیا ہے ۔۔۔ماموں کی بہت عرصے سے جان پہچان تھی ان سے ۔۔سب کو ان کا گھرانہ پسند تھا۔۔عموماً میر ولا میں ان کی تعریف ہؤا کرتی تھی ۔کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا ۔۔ ان کے گھر میں اس کا رشتہ جوڑنے پر جیسے سب تیار بیٹھے تھے ۔۔جان پہچان اچھی خاصی تھی تو جانچ پڑتال کی بھی ضرورت نہیں تھی ۔۔اکثر ان کے دوست کا میر ولا میں آنا جانا لگا رہتا تھا ۔۔ہاں بیٹا کل پہلی بار آ رہا تھا نایاب کو دیکھنے۔۔براہ راست ملاقات کے بعد ضابطہ طور پہ سب طے ہونا تھا ۔۔اور نایاب کا دل کسی ان چاہے بوجھ تلے دفن تھا۔۔
وہ راضی ہو کر بھی خود کو راضی نہیں کر پا رہی تھی ۔۔
”اللہ آپ دلوں کے حال جانتے ہے ۔۔مجھے نہیں پتا میرے ساتھ کیا ہونا ہے مگر آپکو سب علم ہے۔۔آپ تو غیب کا علم رکھتے ہیں۔۔بس جو میرے حق میں بہتر ہو وہ کرنا ۔میں آپکی رضا میں راضی ہو جاؤں گی ۔۔اور مجھے اتنا صبر دینا کہ میں اس پر قائم بھی رہ سکوں ۔۔۔اور مجھے پتا ہے آپ میرے ساتھ کچھ برا نہیں کریں گے۔۔“
اس نے سر سجدے میں رکھ دیا اور بجھے دل کی تمام روداد کہہ سنائی ۔۔اور جب سر سجدے سے اٹھا تو دل و دماغ سکون میں آ چکے تھے ۔۔ جیسے قلبی ٹھہراؤ حاصل ہو گیا تھا۔۔
سجدے میں سکون ہی ایسا رکھا ہے اللّہ نے جو کرتا ہے پا لیتا ہے ۔۔سجدے تسخیر کر لیتے ہیں ۔۔
فجر میں ابھی کافی وقت تھا۔۔اس نے سوچا تب تک چائے ہی بنا کر پی لی جائے ۔۔ویسے بھی تمام رات سے ٹھنڈ میں ٹھٹھر رہی تھی۔۔گیزر آن نہیں تھا تو وضو بھی ٹھنڈے پانی سے کرنا پڑا تھا ۔۔اب تو کانپتے ہاتھوں میں سکت بھی نہیں تھی کہ مزید کانپنے کا تردد سہیں۔۔۔وہ بچھی ہوئی جائے کو یونہی چھوڑ کر نیچے چلی آئی تھی ۔۔پورا میر ولا سکوت میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔نایاب نے غیر ارادہ ہی خارجی دروازے کو دیکھا۔۔جہاں سے ذکاء کو نکلے ہوئے بھی کافی وقت بیت چکا تھا ۔۔
پھر میکانکی سے رخ موڑ کر کچن میں گھس گئی۔۔
••••••••••••