“اسے کال کرو اور کہو کہ آج سيٹ پر آئے۔” اشاذ کے تحکمانہ لہجے پر ارم اسے ايک نظر ديکھ کر رہ گئی۔
“تمہيں کتنی مرتبہ بتا چکی ہوں کہ وہ کسی ڈرامے کے سيٹ پر نہیں جاتی۔ پچھلے ڈراموں کی بار تو تمہیں يہ بھوت نہيں چڑھا تھا اب کيا مسئلہ ہے؟” ارم اسکی دو دن سے جاری و ساری اس رٹ سے تنگ آچکی تھی۔ وہ جانتا بھی تھا کہ ريم صرف کہانی لکھ کر بھيج ديتی ہے اگر کوئی کريکشن کروانی بھی ہو تو اسکے گھر بھيج دی جاتی ہے۔ مگر وہ کبھی سيٹس پر نہيں آتی اور ارم اور ايک دو اور خاتون پروڈيوسرز کے علاوہ وہ کسی مرد سے نہيں ملتی۔
“ميں گزرے کل کی باتيں ياد نہيں رکھتا۔ وہ پہلے نہيں آتی تھی مگر اب آئے گی۔” آج نجانے اسکے دماغ ميں کيا سمائی تھی بس بضد ہوگيا تھا۔ ارم نے اسکی جانب ايسے ديکھ جيسے اسکی دماغی حالت پر شک ہو رہا ہو۔
“کچھ پی پلا تو نہيں آئے؟ پاگل لگ رہے ہو۔” وہ اسکی بحث سے عاجز نظر آرہی تھی۔
“جو بھی سمجھنا ہے سمجھ لو۔ بہر حال وہ کہيں کی ماہرانی نہيں کہ اسے گھر بيٹھے ہر چيز بھيجتی جائے، ياد رکھنا اگر اگلے دو دنوں ميں وہ سيٹ پر نہيں آئی تو پھر ميں يہ سيٹ چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ ڈھونڈ لينا کوئی اور ڈائريکٹر۔” ارم کو وارن کرتا وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور لمبے
لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گيا۔
مکمل پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے اگلے پیج پر کلک کریں