“منور۔۔۔ منور!” یہ گملے یہاں سے اٹھا کر کھڑکی پر کس نے رکھے ہیں؟” زیان کی آواز پر پچیس چھبیس سالہ منور بھاگتا ہوا فوراً حاضر ہوا۔۔
“صاحب وہ کراچی سے بی جان کی جو نواسی آئی ہیں نا انہوں نے کہا ہے کہ یہ پودے لان سے اٹھا کر بی جان کی کھڑکی پر رکھ دئیے جائیں۔۔۔” تیزی سے بولتے ہوئے اس نے اپنی صفائی پیش کی۔۔ اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتا۔۔ اندر راہداری سے بائیس،تئیس سال کے قریب دبلی پتلی لڑکی نکلتی دکھائی دی۔۔۔
“اوہ منور۔۔۔ تم یہاں کھڑے ہو اب تک۔۔۔ میں نے کہا بھی تھا کہ آج بی جان کو لان میں لے کر نکلنا ہے تو ان کے لئے یہاں اس درخت کے نیچے ایک کرسی موجود ہونی چاہئیے۔۔ وہیل چئیر پر بیٹھے بیٹھے وہ بور ہو جاتی ہوں گی۔۔” زیان یوسف کو یکسر نظر انداز کئے وہ سامنے لگے بڑے سے آم کے درخت کی جانب اشارہ کرتی قدرے خفگی سے گویا ہوئی۔۔۔ انداز ایسا تھا جیسے وہ یہاں کی مالکن ہو اور کتنے عرصے سے سب کے درمیان رہ رہی ہو۔۔ زیان یوسف کے کمان جیسے ابروز مزید اوپر کی جانب اٹھے تھے۔۔۔ وہ ایک اچٹتی نظر ہالہ پر ڈال کر منور کی جانب پلٹا جو بہت مودب بنا اس کے احکامات ایسے لے رہا تھا جیسے وہ واقعی اس کی مالکن ہو۔۔ وہ پچھلے ایک ہفتے سے ملک سے باہر تھا اور جانے سے پہلے اسے میشا(بہن) سے پتہ لگا تھا کہ بی جان کی کوئی رشتے کی نواسی یہاں رہنے آنے والی ہے۔۔۔ اور یقیناً یہی وہ نمونہ تھا جس کا میشا نے ذکر کیا تھا۔۔ اور ایک ہفتے میں لگتا تھا جیسے اس نے گھر کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیا ہو۔۔۔
“منور۔۔۔ یہ پودے فوراً نیچے اتروا کر رکھو۔۔۔” اسے نظر انداز کرتا وہ منور کو حکم دیتا آگے بڑھ گیا۔۔ نظریں ہاتھ میں تھامے موبائل پر جمی تھیں جس پر چند ثانیے پہلے کوئی پیغام موصول ہوا تھا۔۔
“ایکسکیوز می!” جب ہی پیچھے سے آتی نسوانی آواز پر اس کے قدم ٹھٹھک کر رکے۔۔۔۔
“السلام علیکم۔۔۔ آئی ایم ہالہ نور خان۔۔۔” اس نام پر اسے ایک جھٹکا لگا۔۔۔ اس نے شاید اب تک ہالہ کو غور سے نہیں دیکھا تھا۔۔ لیکن نام سن کر اسے کچھ اچھی وائبز نہیں آئی تھیں۔۔۔ پلٹ کر دیکھنے پر گویا اسے کرنٹ لگا تھا۔۔ چند دن پرانی ہوئی ملاقات ذہن کے پردے پر ایکدم تازہ ہو گئی تھی۔۔۔۔ جبکہ دوسری جانب بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی۔۔ ہالہ بھی اس کی شکل دیکھ کر سکتے میں عالم میں کھڑی تھی۔۔ منور سے بات کے دوران اس نے زیان کی جانب نہیں دیکھا تھا اور اب جب دیکھا تو گویا پتھر کی ہو گئی تھی۔۔۔ یہ چہرہ وہ کیسے بھول سکتی تھی؟ زیان کے نام پر اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ وہی زیان ہو گا جس سے وہ ایک ناخوشگوار ملاقات کر چکی ہے۔۔
“اوہ تو آپ ہیں وہ بی جان کے پوتے۔۔۔۔ ہائے اللّہ قسمت بھی ہمارے ساتھ کیا کیا کھیل کھیلتی ہے۔۔۔” چند لمحے بے یقینی کی کیفیت میں رہنے کے بعد وہ اپنی جون میں واپس آ چکی تھی۔۔
“مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ ہم رشتے دار لگتے ہیں اور یقیناً آپ کو بھی نہیں پتہ ہو گا۔۔۔ ورنہ آج میں ضرور آپ کے آفس میں پائی جاتی۔۔” زیان نے ناسمجھی سے آنکھیں سکیڑیں۔۔ جبکہ ہالہ کی زبان کسی بنا بریک والی گاڑی کی مانند ایک بار پھر چلنا شروع ہو چکی تھی۔۔۔
“خیر جو ہوا سو ہوا۔۔ میں آپ کو آپ کے پچھلے روئیے کے لئے معاف کرنے کو تیار ہوں۔۔ اب ہم رشتے دار ہیں تو اتنا فرض تو میرا بنتا ہی ہے۔۔۔۔” اس کے اگلے جملے پر زیان نے دانت پر دانت جمائے دایاں ابرو اٹھا کر اسے یوں دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو۔۔ واقعی؟؟ جبکہ ہالہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو نظر انداز کئے ہنوز بول رہی تھی۔۔۔
“دراصل میں بی جان کی کزن کی نواسی ہوں۔۔۔ میں پچھلے ہفتے ہی یہاں آئی ہوں۔۔ یہ پودے میں نے ہی بی جان کی کھڑکی پر رکھوائے تھے۔۔۔۔” سامنے رکھے پودوں کی جانب اشارہ کر کے وہ فخریہ گویا ہوئی۔۔۔ گویا اس پر اپنی دھاک بٹھانا مقصود ہو۔۔ جبکہ زیان کی نظریں ایک بار پھر پودوں سے ہوتیں اس تک آئی تھیں۔۔
“دراصل رنگوں کا ہماری زندگی میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔۔۔ ہرا رنگ تندرستی اور صحت کی علامت ہے۔۔۔ جب بھی تھکن ہو، بیماری ہو، چڑچڑا پن ہو تو سرسبز و شاداب باغ میں چلے جانا چاہئیے۔۔ اب چونکہ بی جان ہر وقت باآسانی باہر نہیں نکل سکتی ہیں۔۔۔ سو میں نے ان کی کھڑکی پر یہ پودے رکھوا دئیے تا کہ کھلی کھڑکی سے وہ ان کی شادابی اور تروتازگی کو اندر اتار سکیں۔۔۔” بنا اسے کچھ بھی بولنے کا موقع دئیے وہ روانی سے بولے جا رہی تھی۔۔
“ہرا ۔۔۔۔۔”
“آر یو ڈن؟” اس کے کاٹ دار انداز میں کئے سوال پر ہالہ کی چلتی زبان ایک جھٹکے سے رکی تھی۔۔۔ سامنے کھڑے شخص کے وجیہہ چہرے پر پھیلے ناگواری کے رنگ پہلی بار اسے واضح نظر آئے تھے۔۔۔
“جج۔۔ جی۔۔۔” چہرے پر جھولتی لٹ کو کان کے پیچھے اڑستی وہ ایک پل میں خجالت کا شکار ہوئی تھی۔۔ اسے اندازہ تھا کہ زیان ایک خشک مزاج انسان ہے لیکن وہ سمجھی تھی شاید رشتے داری کے تقاضے نبھاتے وہ کچھ تو مروت دکھائے گا۔۔ مگر اس کا یہ خیال خام ہی نکلا۔۔ زیان یوسف نے اپنی ازلی اکھڑ مزاجی کا ایک نیا نمونہ اس کے سامنے پیش کر دیا تھا۔۔
“ڈو یو ہیو اینی آئیڈیا کہ ذرا سی تیز ہوا سے یہ گملا زمین پر گر سکتا ہے اور نیچے سے گزرنے والے کسی بھی شخص کو چوٹ لگ سکتی ہے۔۔۔” گملے کی جانب اشارہ کر کے اسے ایک گھوری سے نوازتا وہ دوبارہ جانے کے لئے پلٹ گیا۔۔ وہ جو اتنی دیر سے اس پر اپنی قابلیت جھاڑنے کے چکر میں نہ جانے کیا کیا الا بلا بولے جا رہی تھی۔۔۔ مقابل نے ایک جھٹکے میں اس کی قابلیت کی پوٹلی اٹھا کر اسی کے منہ پر دے ماری تھی۔۔
ساتھ ہی منہ میں بڑبڑایا گیا “سلی گرل” بھی ہالہ کی سماعتوں سے مخفی نہ رہا تھا۔۔۔ وہ سرخ چہرہ لئے بڑبڑاتی ہوئی اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
“یہ غصیلا چڑا ہے ہی بد لحاظ، بد تہذیب۔۔۔۔ کون کہے گا یہ بی جان جیسی نرم مزاج خاتون کا پوتا ہے۔۔ منحوس کہیں کا، کم بخت، الو، جاہل، گدھا۔۔۔۔ اور اور۔۔۔ کاش کاش میں اسے اور گالیاں بھی دے سکتی لیکن کیا کروں، اس سے آگے کی گالیاں باقی خاندان پر اثر انداز ہو جائیں گی۔ اس کے لئے اتنی ہی مناسب ہیں۔۔” دو تین بار پیچھے مڑ کر زیان کو دیکھتے اس نے دل ہی دل میں جتنی بھی “مناسب گالیاں” آتی تھیں۔۔۔ سب سے اسے نواز ڈالا۔۔۔ دوسری جانب اپنے بارے میں اس کے جذبات اور احساسات سے بے فکر زیان یوسف اپنی گاڑی میں بیٹھا ڈرائیور کو کچھ ہدایت دے رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔