جس وقت ہالہ نیچے اتری، بی جان اس کے اندازے کے مطابق جاگی ہوئی تھیں۔۔
“ارے تم اتنی جلدی جاگ گئیں؟” سلام کا جواب دے کر وہ حیرت سے گویا ہوئیں۔۔
“جی بس نیند پوری ہو گئی تھی تو سوچا کچھ وقت آپ کے ساتھ گزار لوں۔۔۔” سر پر ٹکے دوپٹے کو درست کرتی وہ ان کے سامنے کرسی پر براجمان ہوئی۔۔۔ لالچی نظریں بی جان کے آرام دہ بستر پر ٹکی تھیں۔۔ کاش وہ کچھ دیر اور سو سکتی۔۔ لیکن اففف نانو کی نصیحتیں۔۔۔ ایک آہ بھرتے اس نے آنے والی جمائی کو بمشکل روکا۔۔
“سہاگ کا خوب روپ چڑھا ہے میری بچی پر ماشاءاللّہ۔۔۔ سدا سہاگن رہو۔۔” بی جان نے نظروں ہی نظروں میں اس کی بلائیں لیں۔۔ ان کے تبصرے پر ہالہ بس دھیمے سے مسکرا کر رہ گئی۔۔ سہاگ کا تو جو حشر وہ کر کے آئی تھی گر اس کی خبر انہیں ہو جاتی تو یقیناً بلائیں اتارنے کے بجائے اس بلا سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سوچتیں۔۔۔
“ویسے مجھے تم ہنستی کھیلتی اچھی لگتی ہو۔۔ یوں شرمائی لجائی نہیں بھا رہیں۔۔” اسے یوں سر جھکائے بیٹھا دیکھ کر بی جان کو کچھ خاص اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔ انہیں تو اس گھر میں رونق چاہئیے تھی اور وہ ہالہ کی چہکار سے ہی تو تھی۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ بہو بن کر وہ خود کو بدلے۔۔ وہ تو بس اپنے گھر کو پررونق اور زیان کو خوش باش دیکھنا چاہتی تھیں۔۔
“کیا کروں بی جان۔۔ وہ جو آپ کی بہن ہیں نا سُکینہ بانو۔۔۔ انہوں نے کہا تھا کہ شادی کے بعد سر پر دوپٹہ ڈال کر رکھنا۔۔ اور ہر وقت بتیسی باہر نہ نکالنا۔۔۔۔ ورنہ آپ تو جانتی ہی ہیں کہ یہ تھان لپیٹنا، خاموش بیٹھنا، مسکرا کر باتیں کرنا میرے لئے کتنا مشکل ہے۔۔ یقین جانیں جبڑے دکھ چکے ہیں اتنی سی دیر میں۔۔” کرسی پر پاؤں چڑھاتی وہ اپنی نانو کی شکایات کا کٹا کھول کر بیٹھ چکی تھی۔۔۔ اگر بی جان کی ایسی کوئی فرمائش ہی نہیں تھی تو اسے کیا ضرورت پڑی تھی یہ کھڑاگ پالنے کی۔۔۔
“تمہاری بتیسی باہر رہے گی تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا۔۔ یہ تکلفات بھول جاؤ۔۔ اور جیسے کل رات سے پہلے یہاں رہ رہی تھیں نا بالکل ویسے ہی رہنا۔۔۔ اور ہاں کل سے اتنی جلدی بھی نہ اٹھنا۔۔ مجھے معلوم ہے تمہیں دیر تک سونے کی عادت ہے۔۔” بی جان نے اسے جمائی روکتے دیکھا تو مزید نانو کی طرف سے دیا گیا ایک بوجھ اور اس کے سر سے اتارا۔۔۔۔
“ہائے بی جان آپ کتنی اچھی ہیں۔۔ یقین جانیں مجھے پہلے معلوم ہوتا تو میں نانو کو آپ کے پاس ٹریننگ کے لئے چھوڑ جاتی۔۔۔ انہیں تو ہر دم مجھ میں کیڑے نظر آتے تھے۔۔ کہتی تھیں ہالہ تو تو دوسرے گھر جائے گی تو اگلے ہی دن تیری ساس جوتے مار کر نکال دے گی۔۔۔۔” اس سے پہلے وہ مزید بولتی زیان بھی کمرے میں داخل ہوتا نظر آیا۔۔۔
“ارے آج تو تم بھی اتنی جلدی اٹھ گئے۔۔” بی جان کو اسے بھی اتنی صبح تیار دیکھ کر دوسرا جھٹکا لگا۔۔ وہ جانتی تھیں کہ چھٹی کے دن وہ لمبا سونے کا عادی تھا۔۔
“جی بس آفس کے لئے نکل رہا تھا۔۔۔” سر جھکا کر ان سے دعائیں لیتے اس نے گویا ان کے سر پر دھماکہ کیا تھا۔۔
“ہائیں۔۔۔۔ شادی کے اگلے دن آفس کون جاتا ہے؟” بی جان نے خائف نظروں سے اسے دیکھا پھر ایک چور نظر ہالہ پر ڈالی۔۔۔ انہیں لگ رہا تھا کہ زیان ہالہ کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے جبکہ وہ کیا جانیں کہ اس وقت اسے آفس بھیجنے کے پیچھے ہالہ ہی کی مہربانیاں کار فرما تھیں۔۔۔ اسے آرام کرتا دیکھنا اسے کچھ بھایا نہیں تھا۔۔۔
“بی جان۔۔۔ بہت ضروری کام ہے۔۔۔ کوشش کروں گا جلدی آ جاؤں۔۔۔” ہالہ کو مکمل نظر انداز کئے وہ انہیں تحمل سے جواب دے رہا تھا۔۔ گر ان کی طبعیت خرابی کا خدشہ نہ ہوتا تو آفس جانے کی اصل وجہ ان کے سامنے رکھ دیتا۔۔۔
“اچھا وجدان کو میرے آنے سے پہلے لیتی آئیے گا۔۔ کرم دین کو میں کہہ جاؤں گا۔۔ وہ آپ کو لے جائے گا۔۔” کمرے سے نکلتے اسے وجدان کا خیال آیا تو پلٹ کر انہیں یاددہانی کرواتا باہر نکلنے لگا۔۔ وجدان کو میشا کل اپنی طرف لے گئی تھی۔۔ وہ چاہتی تھی زیان فی الحال اپنا پورا وقت صرف ہالہ کو دے۔۔ اس کے حساب سے تو وہ ولیمہ تک وجدان کو اپنے پاس رکھنے والی تھی۔۔ لیکن سب جانتے تھے کہ ایک دن کے لئے تو زیان کسی نہ کسی طرح مان گیا تھا مگر مزید ہفتہ، دس وجدان سے دور رہنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔۔ وہ اس کے لئے غزل اور اس کی محبت کی آخری نشانی تھا۔۔۔۔ جسے وہ ہر دم سینے سے لگائے رکھنا چاہتا تھا۔۔۔
“ایسا کرو ہالہ کو بھی ساتھ لیتے جاؤ۔۔ اسے میشا کی طرف چھوڑ دینا۔۔ یہ کچھ وقت میشا اور وجدان کے ساتھ گزار لے گی پھر واپسی پر دونوں کو ساتھ لیتے آنا۔۔۔” بی جان نے الٹا اس کی گردن پکڑ لی تھی۔۔ ان کے حکم پر اس کا سانس تھما تھا۔۔ نہ جانے کیوں سب اس کے ساتھ ہالہ کا دم چھلا چوبیس گھنٹے لگائے رکھنا چاہ رہے تھے۔۔ جھلانے کے باوجود وہ اپنے جذبات پر قابو پاتا تحمل سے گویا ہوا۔۔۔
“بی جان مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔ آپ اسے ڈرائیور کے ہمراہ چھڑوا دیجیے گا۔۔ واپسی پر وجدان بھی ساتھ آ جائے گا۔۔” ہالہ کو نظر انداز کئے اس نے بی جان کو نئے مشورے سے نوازا۔۔ وہ کسی قیمت اس وقت اسے اپنے سر پر سوار نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔
“ارے کوئی دیر ویر نہیں ہوتی۔۔ صبح کے آٹھ بجے کون سے اہم کام نمٹانے ہیں تم نے۔۔ ویسے بھی میشا کا گھر راستے میں ہی تو پڑے گا۔۔” بی جان نے اس کے عذر کو چٹکیوں میں اڑایا تھا۔۔۔ وہ جانتی تھیں کہ عام طور پر زیان آٹھ کے بعد ہی گھر سے نکلتا تھا۔
“بی جان دراصل۔۔۔۔”
“بڑوں کی بات کو ٹالتے نہیں ہیں۔۔۔ جتنی دیر آپ یہاں کھڑے ہو کر ان سے بحث کر رہے ہیں اتنے میں تو ہم نے آدھا راستہ طے کر لینا تھا۔۔” زیان کی بات کو بیچ سے اچکتے وہ بلاوجہ ہی دادی پوتے کی گفتگو کے بیچ کود پڑی تھی۔۔ دراصل اسے زیان کو تپانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا تھا۔۔ اور اس وقت جب اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اسے ساتھ نہیں لے جانا چاہتا تھا تو اس کا ساتھ جانا تو اب ضروری ہو گیا تھا۔۔۔
زیان نے ایک گہرا سانس بھرتے اسے خشمگیں نظروں سے دیکھا اور تاسف سے گردن جھٹک کر رہ گیا۔۔ جبکہ بی جان نے اپنی بھرپور مسکراہٹ ہونٹوں تلے دبائی تھی۔۔ انہیں اپنی پسند پر اس وقت جی بھر کر ناز ہوا تھا۔۔ اس چھ فٹ کے مرد کو قابو کرنے کے لئے یہ چھوٹی سی لڑکی ایکدم پرفیکٹ چوائس تھی۔۔۔۔
“خوش رہو۔۔۔ اللّہ جوڑی سلامت رکھے۔۔۔” دونوں کے جھکے سر پر ہاتھ پھیرتے انہوں نے دعا دی جو فی الحال زیان یوسف کو کسی بددعا سے کم نہیں لگی تھی۔۔ کچھ ثانیے بعد دونوں ایک دوسرے کے قدم سے قدم ملاتے کمرے سے نکل رہے تھے۔۔۔ جبکہ بی جان پیچھے بیٹھی ہنوز ان کی خوشیوں اور ہمیشہ کے ساتھ کی دعائیں مانگ رہی تھیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔