سیاہ تارکول کی بنی سڑک رات کے اس پہر ایکدم سنسان تھی۔۔۔ اکّا دکّا گزرتی گاڑیاں خاموشی کو چیرتی ہوئی گزر جاتی تھیں مگر اگلے ہی پل پھر ایکدم سناٹا چھا جاتا تھا۔۔۔ ایسے میں سڑک کے کنارے بنے کیفے میں ہلکی نارنجی روشنی پھیلی تھی۔۔ باہر کلوزڈ کا بورڈ لگا ہوا تھا لیکن کھڑکی کے ساتھ رکھی میز پر ایک آدمی بیٹھا تھا۔۔ اس کے سر پر سیاہ رنگ کا کاؤ بوائے ہیٹ تھا۔۔۔ جس سے اس کا چہرہ چھپ گیا تھا اور چہرے کے خدوخال زیادہ نمایاں نہیں ہورہے تھے۔۔۔ میز پر کہنی ٹکائے، ٹھوڑی تلے انگلی رکھے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا لگتا تھا۔۔ بار بار وہ ہاتھ میں پہنی گھڑی پر بھی ایک نظر دوڑا لیتا تھا۔۔ لگتا تھا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو۔۔۔ جب ہی دائیں جانب لگے شیشے پر دستک سے اس کی سوچ کا ارتکاز ٹوٹا۔۔۔۔ باہر چوبیس پچیس سالہ لڑکی کھڑی کھڑکی بجاتی جیسے مدد مانگ رہی تھی۔۔۔ آواز اندر تک نہیں آ رہی تھی لیکن صاف اندازہ ہو رہا تھا جیسے وہ کسی مشکل میں ہو۔۔۔ اگلے ہی پل وہ کھڑکی چھوڑ کر دروازے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
“سیاہ ہیٹ والے نے ادھر ادھر نظر دوڑائی لیکن وہاں کام کرنے والا لڑکا غالباً اندر گیا ہوا تھا۔۔ جبکہ اب لڑکی زور زور سے دروازہ بجا رہی تھی۔۔ آدمی تیزی سے اٹھ کر دروازے تک آیا اور اسے انلاک کیا۔۔۔ اگلے ہی پل لڑکی بھاگ کر اندر داخل ہوئی اور اردگرد نظر دوڑا کر کسی محفوظ جگہ کا تعین کرنے لگی۔۔۔ سیاہ ہیٹ والے نے انگلی سے پیچھے بنے کچن کی جانب اشارہ کیا اور خود دروازے کے ساتھ ساتھ لائٹ بھی بند کرتا دوبارہ اپنی نشست پر جا کر بیٹھ گیا۔۔۔ جبکہ لڑکی اب اندر جا چکی تھی۔۔ جب ہی اسے باہر دو ہیولے نظر آئے جو غالباً اسی لڑکی کی تلاش میں تھے۔۔ کیونکہ ان کا انداز ایسا تھا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہے ہوں۔۔ چونکہ اندر کیفے میں اندھیرا تھا اس لئے وہ لوگ اسے نہیں دیکھ سکتے تھے جبکہ وہ اسٹریٹ لائٹ کے باعث انہیں باآسانی دیکھ سکتا تھا۔۔۔ چند لمحے ادھر ادھر نظر دوڑاتے وہ لوگ آگے بڑھ گئے۔۔ کیفے پر کلوزڈ کا بورڈ لٹکے ہونے کے باعث ان کا دھیان اس طرف نہیں گیا۔۔
“تم باہر آ سکتی ہو۔۔” جب اسے مکمل تسلی ہو گئی کہ وہ لوگ جا چکے ہیں تو اس نے آواز لگا کر لڑکی کو مطلع کیا۔۔ چند لمحوں بعد لڑکی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی باہر نکلتی دکھائی دی۔۔۔ وہاں کام کرنے والا لڑکا بھی اب باہر آ چکا تھا۔۔۔
“اس کے لئے ایک گلاس پانی لے آؤ۔۔۔” لڑکی کو سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتا وہ ملازم سے مخاطب ہوا جو تابعداری سے گردن ہلاتا وہاں سے ہٹ گیا تھا۔۔ وہ دونوں اب اندرونی حصے کی جانب بیٹھے تھے جو فیملیز کے لئے مختص ہوتے تھے۔۔۔ ملازم کچھ دیر بعد ایک گلاس اور پانی کی بوتل رکھ کر چلا گیا۔۔ ساتھ ہی وہ ایک چھوٹی موم بتی بھی رکھ گیا تھا کہ ہیٹ والے کی جانب سے لائٹ کھولنے سے منع کیا گیا تھا۔۔
ہیٹ والے نے بوتل کھول کر پانی گلاس میں انڈیلا اور گلاس لڑکی کی جانب بڑھایا، جسے اس نے بنا کسی تردد کے پکڑ لیا۔۔۔ اب وہ بغور اس کا معائنہ کر رہا تھا۔۔
وہ ایک دبلی پتلی، خوبصورت لڑکی تھی۔۔ رنگت میں گھلا گلابی پن اس اندھیرے میں بھی چمک رہا تھا۔۔۔ حلیہ بھی مناسب سا تھا۔۔ بلکہ لگتا تھا کہ بھاگ دوڑ سے پہلے وہ ٹھیک سے تیار ہوئی ہو گی اور اس بھاگ دوڑ کے درمیان اس کا حلیہ تھوڑا خراب ہو گیا تھا۔۔۔
“کیا نام ہے تمہارا؟” جوں ہی پانی ختم کر کے اس نے گلاس میز پر رکھا ہیٹ والے نے ایک گہری نظر اس پر ڈالتے کھردرے لہجے میں سوال کیا۔۔
“ماریا۔۔” لڑکی نے چند لمحے تذبذب سے سوچنے کے بعد اس کی جانب دیکھتے ایک لفظی جواب دیا۔۔ خوف اور پریشانی اس کے چہرے سے واضح تھی۔۔۔
“کیا کرتی ہو؟ اور یہ لوگ تمہارے پیچھے کیوں لگے تھے؟” انگوٹھے سے پشت کی جانب اشارہ کرتے اس نے ان لوگوں کا حوالہ دیا جو کچھ دیر پہلے یہاں سے گئے تھے۔۔
“میں یہاں۔۔۔” ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتے اس نے جھجھکتے ہوئے بولنا شروع کیا۔۔۔ بولنے کے دوران اس کا اعتماد آہستہ آہستہ لوٹ رہا تھا۔۔۔ یہ بات ہیٹ والے نے بخوبی نوٹ کی تھی۔۔ لیکن وہ خاموشی سے بنا اسے ٹوکے اس کی کہانی سنتا گیا۔۔۔۔
“ہممم۔۔۔ تو تمہاری جان کو ان لوگوں سے خطرہ ہے۔۔ میں تمہارے لئے ایک محفوظ رہنے کی جگہ اور کھانے پینے کا بندوبست کر سکتا ہوں۔۔ بشرطیکہ تمہیں میرا ایک کام کرنا ہو گا۔۔۔” چند لمحوں بعد وہ ایک ہنکارا بھرتا اس کی جانب متوجہ ہوا۔۔ لگتا تھا اس کے ذہن میں پہلے ہی کوئی گتھی تھی جو شاید اس لڑکی کے ذریعے وہ سلجھانا چاہ رہا تھا۔۔ لڑکی نے لاشعوری طور پر اپنے آپ کو مزید سمیٹا۔۔
“تمہیں مجھ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔۔۔ اور جو تم سوچ رہی ہو، میرا ویسا کوئی مطالبہ بھی نہیں ہے۔۔” بیزاری سے کہتے اس نے ناک سے مکھی اڑائی۔۔۔۔ لڑکی کچھ اچھنبے کا شکار ہوئی تھی۔۔ اس نے سرتاپا اس شخص کو دیکھا جس کے چہرے پر بیزاریت درج تھی۔۔ وہ خود بھی کوئی پراسرار شخص ہی لگ رہا تھا۔۔۔ اس پر نظریں جمائے وہ گہری سوچ میں بیٹھی تھی جب وہاں پھیلی خاموشی کو اس سیاہ ہیٹ والے کی آواز نے توڑا۔۔
“میرا نام۔۔۔۔۔۔” اور اگلے کچھ ہی منٹ میں وہ اسے مختصراً اپنی شرائط بتا چکا تھا۔۔۔ لڑکی کے چہرے پر کچھ تذبذب تھا جیسے وہ فیصلہ لینے میں ہچکچا رہی ہو۔۔۔
“تم نے مجھ سے اپنا اتنا بڑا راز شئیر کر دیا اگر میں نے تمہارا یہ راز کھول دیا یا پولیس کو اس کی مخبری کر دی تو۔۔۔۔” نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنی سوچ کو زبان پر لے آئی۔۔۔ کیونکہ یہ ہضم کرنا آسان نہیں تھا کہ کوئی اپنا کالا دھندا پہلی ملاقات میں کسی کے سامنے کھول دے گا۔۔۔
جواباً سیاہ ہیٹ والا ہلکے سے ہنسا تھا۔۔ ہنسنے سے اس کے چہرے پر جو کرخت تاثر تھا وہ ایکدم زائل ہوا تھا۔۔ جس سے لڑکی کی ہمت کچھ اور بڑھی تھی۔۔
“تمہیں لگتا ہے کہ تم مجھے نقصان پہنچا سکتی ہو تو تم بہت معصوم ہو۔۔۔ تمہارے خیال میں یہ سارا کام پولیس کی مدد کے بغیر ہوتا ہو گا؟” ابرو اچکا کر استفسار کرتے اس نے جیسے اس کا مذاق اڑایا تھا۔۔۔ واقعی بات بھی ٹھیک تھی کہ ایسا کام کرنے والوں کو کون سا کسی سے ڈر ہوتا ہے۔۔۔ قانون تو ان کے گھر کی باندی ہوتا ہے۔۔
“ویسے بھی جو اپنی جان کے لئے گلی گلی رلتا پھر رہا ہے وہ مزید دشمنیاں نہیں پالنا چاہے گا۔۔۔۔” اب کی بار انداز میں واضح تنبیہہ موجود تھی۔۔۔
“تمہیں یہ کام کرنا ہے یا نہیں۔۔ یہ تمہاری مرضی ہے۔۔۔” انداز میں موجود بے فکری سے وہ اسے یہ باور کروانا چاہ رہا تھا کہ اس وقت اسے اس شخص کی ضرورت تھی جبکہ خود اس شخص کے لئے کسی کو بھی اس کام کے لئے راضی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔۔
“لیکن یہ تو بہت خطرناک کام ہے۔۔۔ اور اگر میں پکڑی گئی تو مجھے سزا ہو سکتی ہے، انفیکٹ سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔۔” چند لمحوں بعد خوف اور سراسیمگی سے بھرپور اس کی آواز سنائی دی۔۔۔
“نہیں جس طرح ہم یہ کام کریں گے، اس میں پکڑے جانے کا خطرہ بہت مینیمم ہے۔۔ جس طرح تمہیں اپنی جان پیاری ہے۔۔ اتنا ہی ہمیں اپنا مال۔۔ ویسے بھی ابھی تمہاری زندگی کون سی خطرے سے خالی ہے۔۔۔” استہزائیہ لہجے میں کہتے اس نے جیسے سامنے بیٹھی لڑکی کا مذاق اڑایا تھا۔۔۔ ماریا نے لب بھینچے اس کی بات سنی۔۔۔ جو بھی تھا۔۔ سامنے والے کی بات میں دم تو تھا۔۔۔
“صبح تک تم اس کیفے میں رہ سکتی ہو۔۔ یہ لڑکا تمہیں یہاں رہنے دے گا۔۔۔ اگر کل صبح جواب ہاں میں ہوا تو آگے سے تمہاری ہر چیز کی ذمہ داری میری ہے۔۔۔ دوسری صورت میں تم صبح جہاں چاہو جا سکتی ہو۔۔” لڑکی کی خاموشی کو نیم رضامندی سمجھ کر وہ دوبارہ مخاطب ہوا۔۔ گہری نگاہیں اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو بغور نوٹ کر رہی تھیں۔۔۔ جبکہ لڑکی ہنوز خاموش تھی۔۔۔ دماغ میں بہت سی سوچیں ایک ساتھ پنپ رہی تھیں۔۔ لیکن اسے پتہ تھا کہ صبح اسے کیا جواب دینا ہے۔۔۔ اسے سوچوں میں گم بیٹھا چھوڑ کر ہیٹ والا آدمی اپنی چابی، والٹ اور موبائل فون اٹھائے لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔ جبکہ لڑکی نے ایک سکون کا سانس خارج کیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔