یہ ایک مشہور نائٹ کلب تھا۔۔۔۔ جہاں اکثریت نشے میں دھت نظر آ رہی تھی۔۔۔ ڈانس فلور پر تھرکتے وجود بھی ہوش و خرد سے بیگانہ لگتے تھے۔۔۔۔ ہر شخص ہی خود کو فراموش کئے وقتی لذت کے پیچھے دیوانہ ہوا تھا۔۔۔ سوائے ان دو نفوس کے جو ایک دوسرے کے برابر بار اسٹول پر سنجیدہ چہروں کے ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔۔۔ سامنے رکھے کاؤنٹر پر دو گلاس رکھے ہوئے تھے۔۔۔ جن میں سرخ رنگ کا مائع تیر رہا تھا۔۔۔ یہ گریپ جوس تھا۔۔۔۔ لیکن دونوں نے اب تک اسے چھونے کی زحمت نہیں کی تھی۔۔ گلاس کے ساتھ ہی رکھے کرسٹل کے باؤل میں نٹس تھے۔۔ جو بار انتظامیہ کی جانب سے کمپلیمنٹری ہوتے تھے۔۔ لیکن وہ بھی اب تک ان چھوئے تھے۔۔
“تو داؤد کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ اتنی زبردست آفر کو ٹھکرانے کی کوئی خاص وجہ ہے؟؟” سامنے بیٹھے شخص نے اپنے مینی کیورڈ ناخنوں کو ایک دوسرے سے دھیمے دھیمے سہلاتے ہوئے سوالیہ نظریں مقابل کے چہرے پر جمائیں جہاں بلا کی سنجیدگی اور بیزاری صاف دیکھی جا سکتی تھی۔۔ وہ ایک خوبصورت نوجوان تھا۔۔۔ لیکن اس کا حلیہ اس کی شخصیت سے بالکل میل نہیں کھاتا تھا۔۔ لگتا تھا جیسے ساری دنیا سے ناراض ہو۔۔۔۔
گھسی ہوئی نیلی جینز پر گرے رنگ کی گول گلے والی ٹی شرٹ پہنے جو اس سردی کے لئے ناکافی تھی، وہ اپنے حلیے سے لاپرواہ بیٹھا تھا۔۔ حالانکہ کریو کٹ بال اس کی شخصیت پر جچ رہے تھے لیکن شاید ایسے ہئیر اسٹائل کا مقصد بھی بال بنانے کی جھنجھٹ سے چھٹکارا تھا۔۔ کانچ سی ہری آنکھوں پر نظر کا موٹے فریم کا چشمہ دھرا تھا۔۔ جسے وہ بار بار شہادت کی انگلی سے ناک کے اوپر چڑھاتا تھا، کافی پرانا لگتا تھا۔۔ کیونکہ اس کی کمانی پر سے اب پالش تک مٹنے لگی تھی۔۔ مونا پروڈکشنز کے مالک نے بغور اس کا جائزہ لیا۔ پچھلی بار اس نے اپنے آدمی کو اس کے پاس بھیجا تھا۔۔ لیکن ناکامی کی صورت میں اسے خود ہی اس وقت اس سے بات کرنا پڑی تھی۔۔ جبکہ عموماً وہ لوگوں سے خود کم ہی ملا کرتا تھا۔۔
“دیکھیں مسٹر!” جملہ ادھورا چھوڑ کر سوالیہ نگاہیں سامنے بیٹھے بارعب اور پر اثر شخصیت کے حامل شخص کے چہرے پر جمائیں۔۔ انداز ایسی بیزاریت لئے ہوا تھا، جیسے اسے اس کی پرسنالٹی یا آفر سے کوئی سروکار نہیں ہو۔۔
“یہاں سب مجھے “میڈ” کہتے ہیں۔۔ تم بھی اسی نام سے بلاسکتے ہو۔۔” سامنے والے نے اس کی بیزاریت کو بخوبی نوٹ کیا تھا، لیکن اس کے انداز کو نظر انداز کرتے مسکراتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔۔۔۔ داؤد نے چند لمحے اس کے مسکراتے چہرے کو بغور دیکھا۔۔۔ پھر گردن جھٹک کر دوبارہ مخاطب ہوا۔۔
“سب سے پہلی بات مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ آخر آپ نے مجھے اس جگہ کیا سوچ کر بلایا ہے۔۔” اس نے ایک ناپسندیدہ نظر ارد گرد کے ماحول پر دوڑاتے خفگی سے سوال کیا۔۔ اس کے سوال پر میڈ ہلکے سے ہنسا۔۔ جیسے اس کی بات سے حظ اٹھایا ہو۔۔
“آئی نو تمہیں اس ماحول کی عادت نہیں ہو گی۔۔۔ لیکن دراصل مجھے یہاں کسی سے ملنے آنا تھا۔۔ تو سوچا دو ملاقاتیں ایک ساتھ نمٹا دوں۔۔۔ تم میرے آفس آنے کو بھی تو تیار نہیں تھے۔۔۔ ویسے شاید تم مجھے جانتے ہوتے تو اس ملاقات کو اپنے لئے شرف کا باعث سمجھتے۔۔۔” میڈ نامی شخص کو اس معمولی سے حلیے والے لڑکے کا انداز بڑا دلچسپ لگا تھا۔۔۔۔ اس میں اور خود میڈ کے اسٹیٹس میں زمین، آسمان کا فرق تھا لیکن پھر بھی وہ اس سے ذرا مرعوب نظر نہیں آتا تھا۔۔۔
“اینی ویز، میں آپ کے آدمی کو پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ مجھے اس قسم کے کام کا نہ ہی تو تجربہ ہے۔۔۔ نہ ہی میں ان فضولیات میں اپنا وقت برباد کر سکتا ہوں۔۔” سیدھے پاؤں پر الٹا پاؤں رکھ کر جھلاتے اس نے بیزاری سے جواب دیا۔۔
“تمہارے باپ کو ڈھونڈنا میری ذمہ داری ہے۔ مرنے سے پہلے تمہاری ماں ضرور تمہارے باپ سے ملے گی۔۔۔” بلآخر میڈ نے اس کے سامنے وہ پتا پھینکا جو وہ اب تک بچا کر رکھا ہوا تھا۔۔۔ اسی جملے نے حکم کے اکّے کا کام کیا۔۔۔ اس کا اندازہ میڈ کو بخوبی ہو گیا تھا۔۔۔ کیونکہ اب کی بار داؤد نے اسے چونک کر دیکھا تھا۔۔۔۔ پہلی بار اس کے چہرے پر بیزاری کے سوا کوئی دوسرا رنگ نظر آیا تھا اور وہ تھا فکر کا رنگ۔۔۔۔ چند لمحے وہ بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا۔۔
“میں کیسے تمہارے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہوں۔۔ یہی سوچ رہے ہو نا؟” میڈ نے ہنستے ہوئے ہلکے سے گردن پیچھے پھینکی۔۔۔
“مجھے اپنا ہوم ورک مکمل کرنے کی عادت ہے۔” شاطرانہ نظریں اب پرندے کے گرد جال بنتا دیکھ رہی تھیں۔۔۔ جبکہ داؤد کے چہرے پر تذبذب صاف دیکھا جا سکتا تھا۔
“لیکن تم کیسے یہ کام کرو گے؟” اب کی بار اس کا انداز کچھ دھیما تھا۔
“وہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔۔۔۔ ایک بار تم میری فلم میں کام کرنے کی ہامی بھر لو تو فلم کے اختتام تک تمہارا ہر مسئلہ ختم ہو چکا ہو گا۔” چند دانے جال کے اندر اور ڈالے گئے۔۔۔ اب وہ آہستہ آہستہ اس کے پھڑپھڑاتے وجود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
“لیکن اسٹنٹ مین کا کام بہت خطرناک ہوتا ہے۔۔ مجھے اس قسم کے کام کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔۔” اب وہ نیم رضامند دکھائی دیتا تھا۔۔ لیکن اس کی پریشانی بجا تھی۔۔۔
“تم اس میں سے بہت سے کاموں میں ماہر ہو۔۔۔ فائٹس، سوئمنگ، ہارس رائڈنگ۔۔۔۔ باقی جو تھوڑی بہت ٹریننگ ہے۔۔ وہ ہمارا اسٹنٹ کو آرڈینیٹر کروا دے گا۔۔” میڈ نے لاپرواہی نے شانے اچکاتے ہوئے اس کا یہ اعتراض بھی رد کیا۔۔۔ جبکہ داؤد منہ کھولے اسے سن رہا تھا کہ آخر وہ اس کے بارے میں اتنا کچھ کیسے اور کیوں جانتا ہے۔۔۔
“لیکن مجھ میں ایسا کیا ہے کہ تمہیں ہر حال میں مجھے ہی اسٹنٹ مین رکھنا ہے۔۔ اس آفر کے ساتھ تو کوئی بھی تمہارے لئے یہ کام کرنے کو راضی ہو جائے گا۔” داؤد ہنوز شش و پنج کا شکار تھا۔ میڈ نے ایک بوجھل سانس خارج کرتے ہوئے نٹس کے چند دانے منہ میں ڈالے۔۔ پھر ہاتھوں کو جھاڑ کر اپنا کوٹ درست کیا۔۔ اسٹول پر دوبارہ آرام دہ پوزیشن میں بیٹھتے اس نے گلا کھنکھارا۔۔
“تمہیں مجھے پوری کہانی سنانی ہی پڑے گی۔۔ تم اتنی آسانی سے ہاتھ آنے والوں میں سے نہیں ہو۔اینی ویز۔۔” ڈرنک کا ایک چھوٹا سا سپ لیتے ہوئے گلاس دوبارہ میز پر رکھا۔۔۔
“چند دن پہلے ہمارا ایک اسٹنٹ مین ایک اسٹنٹ کے دوران زخمی ہوگیا ہے۔۔ اس کی ٹانگ میں فریکچر ہوگیا ہے اور اسے ریکور کرنے میں کم از کم چھ ماہ لگیں گے۔۔ ہم اتنا عرصہ اس کا انتظار نہیں کرسکتے ہیں اور مزید کسی کو ڈھونڈنے میں وقت لگ جائے گا اور اس سب میں فلم کی شوٹنگ ڈیلے ہو جائے گی۔۔ اور میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا ہوں۔ کیونکہ مجھے وقت پر یہ مووی ختم کرنی ہے۔ اس پر میرا کروڑوں روپیہ لگا ہے۔۔۔۔
خیر اس مسئلے کو لے کر میں کافی پریشان تھا کہ اتفاقیہ طور پر اسی شام تم میرے ٹیم میٹ کو ایک اسٹریٹ فائٹ کے دوران نظر آئے۔۔” داؤد نے چونک کر اسے دیکھا یعنی وہ جانتا تھا کہ وہ الیگل فائٹس میں ملوث ہے۔۔ فکر اور پریشانی کے کچھ سائے چہرے پر لہرائے۔ میڈ نے اس کی پریشانی سے حظ اٹھایا۔۔ جال مزید تنگ ہوا تھا۔۔ بنا کچھ تاثر دئیے اس نے اپنی کہانی جاری رکھی۔
“تم قد کاٹھ میں ولیم( اسٹنٹ مین) جیسے ہو اور پھر تم لڑائی بھڑائی میں تو ماہر ہو ہی۔۔ بس تمہارا تھوڑا سا میک اوور اور بال ڈائی کرنے ہوں گے تو تم ہمارے مطلوبہ شخص سے ملنے لگ جاؤ گے۔ اس وقت تمہارا جیسا بندہ فوراً ملنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔۔ اس لئے ہم نے تمہارے بارے میں تمام معلومات نکلوائیں اور آج کی یہ میٹنگ اسی سلسلے میں ارینج کی گئی کیونکہ اس وقت تمہیں ہماری اور ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔ اب بولو کیا تمہیں یہ آفر منظور ہے؟” گلاس سے مزید ایک گھونٹ بھرتے اس نے سوالیہ نگاہیں داؤد کے چہرے پر جمائیں۔۔۔ جہاں پہلے کی بہ نسبت اب اطمینان جھلک رہا تھا۔۔
“لیکن یہ کام کتنے دن کا ہوگا؟؟” میڈ کے خاموش ہونے پر اس نے گلا کھنکھارتے سوال کیا۔۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ کافی حد تک اس آفر کے بارے میں ذہن بنا چکا تھا۔۔
“کچھ حتمی نہیں کہہ سکتے کہ کتنے دن میں کام مکمل ہوگا۔ لیکن یہی کوئی تین چار ماہ۔۔۔ جس کے اکثر سینز ہم پہلے ہی شوٹ کر چکے ہیں۔” میڈ نے کندھے اچکاتے ہوئے اسے تفصیل سے آگاہ کیا۔
“لیکن میں اپنی ماں کو ایسے نہیں چھوڑ سکتا۔” اس کے جملے پر میڈ کا دل چاہا اس کے منہ پر کس کس کے دو لگائے۔۔ وہ جہاں سے چلنا شروع کرتا تھا گھوم پھر کر وہیں دوبارہ آ کر رک جاتا تھا۔
“تمہاری ماں جس اولڈ ہوم میں ہے، وہاں سے بہت اچھے سینٹر میں ہم اسے منتقل کر دیں گے۔ تم تو ویسے بھی اس کے پاس روز نہیں جا پاتے ہو تو کم از کم اچھے پیسے کما کر اس کا لائف اسٹائل ہی تھوڑا اپ گریڈ کر دو۔” طنزیہ لہجے میں ادا کیا گیا یہ کڑوا سچ اس نے گردن جھکا کر جھیلا۔
“اوکے۔۔ مجھے کب سے کام پر آنا ہوگا؟” چند لمحوں بعد وہ دھیمے لہجے میں گویا ہوا۔ گردن ہنوز جھکی ہوئی تھی، جوتے کی نوک فرش کے ٹائل پر ایسے مارہا تھا جیسے اسے کریدنا چاہ رہا ہو۔ میڈ جانتا تھا کہ وہ اس وقت ذہنی خلفشار کا شکار ہے۔۔۔ لیکن چند دن میں نارمل ہوجائے گا۔
“کل سے۔۔”
“ٹھیک ہے۔۔”
دونوں نے مختصراً گفتگو کو سمیٹا۔
“یہ رہی تمہاری پہلی پے منٹ۔” پیچھے کھڑے آدمی کے ہاتھ سے نوٹوں کی ایک گڈی لے کر اس نے داؤد کی سمت بڑھائی۔۔ گویا اسے پورا یقین تھا کہ وہ اسے یہاں سے منا کر ہی اٹھے گا جب ہی پوری تیاری سے آیا تھا۔۔ داؤد نے اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈال کر اسے جیب میں ٹھونسنے کے انداز میں رکھا جیسے اسے ان پیسوں سے کوئی غرض نہ ہو۔۔ شاید اس کا اصل کام اس کے باپ کی کھوج تھی۔۔ اور ممکنہ طور پر وہ میڈ کے ذریعے بآسانی ہو جاتا کیونکہ اس کے حلیے اور انداز سے اس کا اثر و رسوخ جھلک رہا تھا۔۔
“اوکے میں چلتا ہوں۔۔” اگلے ہی لمحے وہ اسٹول چھوڑتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“یہ میرا کارڈ ہے۔۔ کل اس ایڈریس پر آ جانا۔۔ باقی تفصیلات تمہیں وہاں سمجھا دی جائیں گی۔۔” میڈ نے کاؤنٹر پر ایک کارڈ رکھتے اسے مزید ہدایات جاری کیں۔۔
“اوکے۔۔” بنا کارڈ پڑھے، اسے بھی دوسری جیب میں ٹھونستا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا آگے بڑھ گیا۔۔
“اس پر نظر رکھنا۔” دور جاتے داؤد کی پیٹھ پر نظر جمائے اس نے اپنے سیکریٹری کو متنبہ کیا جو اس پوری بات چیت کے دوران پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
“شیور سر!” ہمیشہ کی طرح وہ مستعدی سے سر ہلا کر رہ گیا۔۔
“میں ذرا مسٹر جیک سے ملاقات کروں۔۔ تم لوگ نیچے ہی رہنا۔۔” وہ اپنے ساتھیوں کو ہدایت دیتا لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔