”ہم تسلی سے اس پر بات کریں گے۔“ انھوں نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید کچھ بھی کہنے سے روک دیا تھا۔”بیگ میں اگر کوئی کاسمیٹک ہے تو چہرے پر لگا کر یہ نشان چھپا لو؛ نہیں ہے تو بتاؤ! نوید ابھی گاڑی روک کر لے آئے گا۔“ ساتھ ہی اسے ہدایت کی تھی۔ ڈرائیور نے یہ سنتے ہی گاڑی کی رفتار آہستہ کی تھی۔ وہ ہونٹ کا کونا دانتوں میں دباتی ایک دم سے بیگ پہ جھک گئی تھی۔ سن بلاک اور لیکوئڈ فاؤنڈیشن وہ ہمیشہ پاس رکھتی تھی۔”میرے پاس ہے ڈیڈی!“ اس کی دھیمی سی آواز گاڑی کی محدود فضا میں گونجی تو ڈرائیور گاڑی کی رفتار پھر معمول پر لے آیا تھا۔”اپنے دکھوں کا اشتہار نہیں لگایا کرتے بختاور! انسان جتنا خود کو کم زور دکھاتا ہے دنیا اسے اتنا نوچتی ہے۔“ وہ کانپتے ہاتھوں سے اپنے چہرے پر فاؤنڈیشن لگا کر سرخ چہرے کی سرخی چھپانے لگی تھی۔(چہرے کے داغ تو اس کریم سے چھپ جائیں گے بختاور! اس داغ کا کیا کرو گی جو محبت نے تمھارے دل پر لگا دیا ہے۔) اس کے اندر سے آواز آئی تھی تاہم وہ آواز شبیر حقانی کی بلند آواز میں دب سی گئی تھی۔”اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ تم خود کم زور پڑ گئی یا تم نے کسی کم زور کو اپنی طاقت دکھانے پر مجبور کیا۔“ اس کی آنکھیں پھر سے نمکین پانی سے بھر گئی تھیں۔(میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا ڈیڈی! صرف اپنے دل میں چھپی محبت کے اظہار کے لیے الفاظ کی زبان دی تھی۔) اس نے بیگ سے ٹشو نکال کر آنکھیں پونچھیں اور چہرے کو تھپتھپا کر خود کو پر سکون ظاہر کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔”شاباش! اب بالکل ٹھیک ہے۔“ انھوں نے اس کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر اونچا کر کے دیکھتے ہوئے اسے سراہا تھا۔”رونا کم زور لوگوں کی عادت ہے بختاور! تم شبیر حقانی کی بیٹی ہو۔ آئندہ میں تمھیں روتے ہوئے نہ دیکھوں۔“ اس کا شانہ تھپکتے انھوں نے اسے سمجھایا تھا۔(محبت کی راہ پر چل پڑیں تو آنسو آنکھوں کا رستہ دیکھ لیتے ہیں اور غم دل میں گھر کر جاتے ہیں۔ پھر کچھ بھی انسان کے بس میں نہیں رہتا ہے۔) وہ سر ہلا کر ان سے اتفاق کرنے کی اداکاری کرتی، سر جھکا کر اپنے سارے آنسو اندر ہی دھکیل گئی تھی۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بختاور ہاسٹل پہنچی اور ابھی گاڑی پورچ میں کھڑی کرکے باہر نکلی ہی تھی کہ سامنے کھڑے شبیر حقانی کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی تھی۔”ڈیڈی! آپ یہاں اچانک؟“ ایک دم سے ان کا سامنا کرنا دشوار ہو گیا تھا۔”میں اچانک نہیں آیا لیکن یہ۔۔ یہ تمھارے چہرے پر نشان کیسا ہے؟“ انھیں اس کے چہرے پر انگلیوں کے نشان واضح دکھائی دیے تھے جنھیں وہ پروفیسر عباد بدر کے کمرے سے نکل کر گاڑی تک آتے، سارے رستے دوپٹے سے چہرہ چھپا کر آئی تھی مگر اب ڈیڈی کے اچانک سامنے آنے پر چہرہ ڈھانپنے کی بھی مہلت نہیں ملی تھی۔”کس نے کیا ہے یہ۔۔۔“ ان کی آواز غصے سے کانپنے لگی تھی۔”کچھ نہیں ہوا ڈیڈی! یہ تو بس۔۔۔“ اس سے کوئی بات بھی نہیں بن پائی تھی۔”تم یونی ورسٹی سے ہی آ رہی ہو نا۔۔! کیا پروفیسر عباد بدر سے ملنے گئی تھی؟“ انھوں اس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے، سنجیدگی سے دریافت کیا تھا۔ اسے کوئی بہانہ بھی نہیں سوجھ رہا تھا۔ ان کا یہ پوچھنا تھا کہ آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوئیں اور سر ہلا تھا۔”یہ انھوں نے اچھا نہیں کیا۔ اس کا کیا انھیں بھگتنا ہی پڑے گا۔ تم اندر اپنے کمرے میں جاؤ! تم سے میں بعد میں بات کروں گا پہلے مجھے پروفیسر عباد بدر سے ملنا ہے۔“ وہ پلٹے تو جیسے بختاور کو بھی ہوش آیا تھا۔ ڈیڈی وہاں چلے جاتے تو اس کے حق میں اور برا ہوتا۔ اسے تو ڈیڈی کو منانا تھا نا کہ وہ خود جا کر پروفیسر سے جھگڑا کر بیٹھتے۔ یہ خیال آتے ہی اس نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں روکا تھا۔”نہیں ڈیڈی پلیز! آپ وہاں مت جائیے۔“”کیوں؟“ انھوں نے اچنبھے سے اسے دیکھا تھا۔”خواہ مخوا کا تماشا بن جائے گا اور۔۔۔“”تماشا بننے سے میں نہیں ڈرتا اور ان کی ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی پہ ہاتھ اٹھانے کی۔۔۔“”ڈیڈی پلیز۔۔!!“ وہاں گیٹ پر کھڑے دونوں چوکیدار اب انھیں کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔”انھیں یہ ہمت آپ کی بیٹی ہی کی دی ہوئی ہے۔“ کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ ایک دم چپ سے ہوئے تھے۔”تم نے کیا کیا ہے بختاور۔۔؟“ وہ اب اسے شک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے تھے۔ دل میں اس شک نے بھی سر ابھارا تھا کہ پروفیسر نے جو کچھ بختاور کے بارے میں کہا تھا کہیں وہ سچ تو نہیں تھا؟ اور اب بختاور کی یہ بات۔۔۔ ایسا کیا کیا تھا اس نے کہ وہ اس پہ ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہوئے تھے؟ جہاں تک انھیں پتا چلا تھا؛ وہ بہت ٹھنڈے مزاج کے انسان تھے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قصور ان کی اپنی اولاد کا ہو اور وہ سزاوار انھیں سمجھتے رہیں۔”چلو! ہم ہارون کے گھر چل کر بات کرتے ہیں۔“ وہ پھر متذبذب ہوئی تھی۔ ایسی حالت اور ان حالات میں وہ قیام کا سامنا بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ”ڈیڈی! ہم یہیں میرے کمرے میں چل کر۔۔۔“”نہیں! یہ جگہ اس بات کے لیے قطعی نا مناسب ہے۔“ وہ کَہ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر، باہر گیٹ پر کھڑی اپنی گاڑی کی طرف آئے جو پہلے بختاور کی نظر میں نہیں آئی تھی اگر وہ گاڑی دیکھ لیتی تو کچھ دیر ہاسٹل میں آنے کا سوچتی بھی نہیں۔”آپ اچانک کیوں آئے تھے ڈیڈی؟“ اس نے پوچھا تھا۔ شبیر حقانی نے فون جیب میں رکھتے، اسے غور سے دیکھا اور بولے:”تم سے ہی ملنے آیا تھا اور اسی سلسلے میں آیا تھا۔“ اس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔ نجانے سر عباد نے ان سے کیا کچھ کہا ہو گا۔”ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے ڈیڈی! وہ بس۔۔۔“