پورے میر ولا میں چہل پہل اور خاصی رونق لگی ہوئی تھی ۔۔عصر کے بعد مہمانوں کی آمد کا کنفرم ہو گیا تھا ۔۔اور خواتین اس سے پہلے کچن میں گھسیں خوش ذائقہ لوازمات تیار کرنے میں کمر بستہ تھیں ۔۔۔ دادو نے نے لڑکوں کو بھی ساتھ مدد کے لئے لگایا ہوا تھا۔۔۔اور دادو کا حکم تھا تو کون کام سے کھسک سکتا تھا ۔۔
کیا بلال،کیا زوار،کیا شانی ۔سب ہی خوب کام میں مدد کرتے نظر آ رہے تھے ۔۔
بلکہ سلاد تو شانی اور زوار نے ہی بنایا تھا ۔۔زوار شانی سے ناراض تھا۔۔دونوں میں بات چیت نہیں ہو رہی تھی ۔۔مگر شانی خوب اسے منانے کی کوششیں جاری ؤ ساری رکھے ہوئے تھا۔۔زوار روٹھنے میں تو عورتوں کو بھی مات دے جاتا تھا ۔۔ابھی بھی زوار مہر کے ساتھ بیٹھا مٹر چھیل رہا تھا ۔۔زرناب پھپھو کا ارادہ تھا کھانے میں مٹر پلاؤ کا اضافہ کر لیں ۔۔چاولوں میں بھی کچھ ہونا چاہیے تھا ۔۔
”زوی یار بات تو سنو!“ شانی ابھی پھر ماں کے ساتھ اچھی خاصی بحث کر کے باہر آن اس کے سر پر کھڑا ہوا تھا ۔۔رانی کام ختم کر کے چلی گئی تھی اور اقراء ممانی نے پھر سے شانی کو کمرہ نہ کھول کر دینے پر اسے آڑھے ہاتھوں لے لیا تھا ۔۔وہ ذچ ہو کر پہلے تو خوب آنا کانی کرتا رہا ۔۔پھر کان لپیٹے کچن سے نکل آیا ۔۔دادو برآمدے میں بیٹھے تھے۔۔بے جا کا شور سنتے تو معاملہ پوچھتے ۔۔اسی لئے کنی کترانا ہی درست تھا۔۔
”زوی تم سن کیوں نہیں رہے ۔۔“شانی نے روہانسی شکل بنائی تھی۔۔
”تمہیں آخر کیا مسئلہ ہے مجھ سے.“ زوار نے اپنے سر پر اس کی موجودگی سے چڑ کر ڈانٹا ۔۔
”اب دیر ہو گئی تھی تو میں کیا کرتا۔۔۔جان بوجھ کر تھوڑی کوئی لیٹ ہوتا ہے ۔۔“وہ اپنا دفاع کر رہا تھا ۔۔
”تو میں نے کیا کہا ہے تمہیں ؟“ زوار نے حیرانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہر کو تائید میں لیا تھا ۔۔مہر نے چہرہ اٹھا کر بھائی کو دیکھا ۔۔
”زوی سن لو نا اس کی بات ۔۔دیکھو تو پہلی بار اتنا معصوم لگ رہا ہے ۔۔۔“ مہر کو شانی کی روہانسی شکل پر ترس آیا تھا ۔۔
”اس نے مجھے کہا تھا یہ شام تک آ جائے گا۔۔اور پھر فیملی ڈنر تک بھی نہیں پہنچا جناب ۔۔اس کے بعد پتا نہیں رات گئے کب انھیں یاد آیا کہ ان کا ایک عدد گھر بھی ہے تب جا کر موصوف نے واپسی کی راہ لی تھی ۔۔اگر دیر کرنی ہی تھی تو بندہ آسرے میں نہ چھوڑ کر جائے ۔اور پھر ایسے نواب ہیں کہ فون تک نہیں اُٹھاتے ۔۔“زوار کا حساب ابھی ختم نہیں ہوا تھا ۔۔نہ شکوہ شکایات ۔
”اچھا ٹھیک ہے ہو گئی غلطی ۔۔“
”تم ہمیشہ یہی غلطی کرتے ہو اور پھر یہی کہتے بھی ہو۔ “زوار پھر اس کی بات کاٹ کر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔۔وہ ہونق کھڑا رہ گیا۔
”دیکھ رہی ہو تم مہر ۔۔کتنے نخرے ہو گئے ہیں اس کے ۔“اس نے برا فروختہ ہو کر جاتے زوار کی پشت کو گھورا تھا ۔۔
”اچھا بھلا مٹر چھلوا رہا تھا میرے ساتھ ۔۔بھگا دیا نا اسے ۔۔اب بیٹھو یہاں اور یہ مٹر چھلواؤ میرے ساتھ ۔۔“
مہر نے پیچ و تاب کھا کر بھائی کو گھورا اور پھر تڑی دکھاتے ہوئے غصہ کیا، مٹر چھیلنے پر تو ویسے بھی اس کی جان جاتی تھی اور پھر مٹروں سے کیڑا نکل آنے کا خوف تو ہر عذاب سے زیادہ ہوتا تھا۔ ۔۔ویسے بھی شانی کو اب کیا کرنا تھا۔۔خاموشی سے بہن کے ساتھ بیٹھ کر مٹر چھیلنے لگا ۔۔
••••••••••••••
لیوینڈر کلر کی لونگ فراک میں نایاب کی گلابیاں گھلی رنگت مزید نکھر آئی تھی ۔۔۔لائٹ سی جیولری اور بہت ہلکی سی تیاری کے بعد وہ بےحد خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔ بالوں کو تیکھے سے اسٹائل میں سمیٹ کر اس نے سر پر دوپٹہ سیٹ کیا تھا ۔۔۔آئینے کے سامنے کھڑی ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے وہ دوپٹے کو سامنے درست کر رہی تھی جب کسی نے دستک دے کر اندر جھانکا تھا ۔
”نایاب مہمان آ گئے ہیں۔ “ پیغام دینے والی زیب النساء تھی۔۔جو دے کر فوراً واپس پلٹ گئی تھی۔۔نایاب کے دل کو کسی اضطراب نے سمیٹا تھا۔۔اس نے سینک نکلتے وجود کو محض ایک پُر حوصلگی مسکراہٹ سے نارمل کیا اور باہر نکل آئی ۔۔۔سامنے ہال میں ہی مہمانوں کا گرمجوشی سے استقبال ہو رہا تھا ۔۔اسے فوراً وہاں جانا اچھا نہ لگا ۔۔کسی کی نظروں میں آنے سے پہلے تیزی سے کچن میں گھس آئی ۔
”اوں ہوں۔۔۔لڑکا تو بہت ہینڈسم ہے یار ۔۔اوردیکھو تو کیا ہیئر کٹ اور پرسنالٹی ہے ۔۔ اوپر سے باہر رہتا ہے ۔۔ لب و لہجہ بھی انگریزی لگتا ہے ۔۔اردو بھی ٹھیک طرح سے نہیں بولنا آ رہی ۔۔تمہارے تو نصیب ہی جاگ اٹھے ہیں نایاب ۔۔“ذیبی اور مہر کچن کی کھڑکی پر چپکی سامنے ہی نظر آتے ہال میں موجود افراد پر نگاہ جمائے اشتیاق سے کومنٹری کر رہی تھیں۔۔ نایاب کے آتے ہی انہوں نے بےتابی اور شوخی سے چھیڑا تھا ۔۔نایاب کی آنکھیں ان کی حرکت پر پھیل گئیں ۔۔
”یہ تم دونوں کیا کر رہی ہو ۔پیچھے ہو جاؤ ۔۔اگر کسی کی نظر پڑ گئی نا ادھر کہ تم دونوں کس طرح یہاں سے لٹک کر دیکھ رہی ہو تو شامت آ جائے گی تم دونوں کی ۔“اس نے بے ساختہ آگے جا کر گھر والوں کے ڈر سے انھیں ڈپٹا تھا ۔۔مگر انھوں نے کیا خاک اثر لینا تھا ۔۔اسے بھی کھینچ کر ساتھ کھڑا کر لیا۔ ۔